بدھ، 26 دسمبر، 2012

نئی سیاسی بساط کے ممکنہ خدوخال

ماضی قریب کے کچھ واقعات پہ نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب کی بار کچھ نئے طور کی سیاسی بساط بچھانے کی تیاری ہو رہی ہے اور ایک ایسا منظرنامہ سامنے آنے کا امکان ہے، جس کی ہماری سیاسی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔

ایک بات تو گزشتہ پانچ سال کے حالات سے ہی واضح ہے کہ ہماری دو بڑی سیاسی شخصیات یا پارٹی سربراہان یعنی نواز شریف اور آصف زرداری
اس نتیجے پہ پہنچ چکے ہیں کہ سیاسی عمل سے فوج اور ایجنسیوں (جن کے اشتراک کو اسٹیبلشمنٹ کا نام بھی دیا جاتا ہے) کو ہر قیمت پہ باہر رکھا جائے۔ اس عزم پہ کاربند رہنے کی قیمت دونوں پارٹیاں ہی کافی حد تک دے رہی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق نواز شریف کو گزشتہ پانچ سالوں میں ایک سے زیادہ بار اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پیشکش کی گئی ہے کہ وہ زرداری حکومت کا مکو ٹھپنے میں ساتھ دیں تا کہ اس اقدام کو عوامی حمایت سے ایک مقبول اقدام بنوایا جا سکے۔ شہباز شریف اور نثار علی خان وغیرہ سے فوج کے اعلٰی ترین عہدے داروں کی ملاقاتوں کی خبریں بھی آتی رہی ہیں، جن میں یقیناً کچھ پرکشش آفر دی گئی ہو گی۔ لیکن نواز شریف نے فوج کو سیاست سے باہر رکھنے کے لئے ایسی کسی بھی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔

بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس ایک نکتے پہ نواز شریف اور زرداری میں مکمل اتفاق پایا گیا ہے، جبکہ اس کے علاوہ دونوں جماعتوں میں سیاسی اختلاف بھی رہا ہے، جس کا بڑا مقصد شاید اپنے ووٹ بنک میں اضافہ اور آنے والے الیکشن میں حکومت سازی کا موقع حاصل کرنا تھا۔
اسی اتفاق کا ہی ایک مظہر حالیہ دنوں میں سامنے آیا ہے جب گورنر پنجاب کے طور پہ ایک ایسی شخصیت کو لگایا گیا، جو کہ دونوں جماعتوں کے لئے خاصی قابلِ قبول ہوں گے۔ اور کافی امکان ہے کہ نگران وزیرِ اعظم کے لئے بھی کسی متفقہ سیاسی شخصیت کو ہی سامنے لایا جائے۔ ان دنوں اسحاق ڈار کا نام اس سلسلے میں خبروں میں کافی آ رہا ہے۔ اس کا مقصد بھی یہی ہو گا کہ نگران وزیرِ اعظم ایسا ہو جو کہ دونوں جماعتوں کے لئے قابلِ قبول بھی ہو، لیکن اس کے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیلنے کا بھی امکان نہ ہو، تا کہ کہیں نگران وزیرِ اعظم کو الجھا یا اکسا کر الیکشن موخر کرنے کی تدبیر نہ کی جا سکے۔

دونوں لیڈران کے اس اکٹھ نے ہی سیاسی شعبدے بازوں کو اس پہ اکسایا کہ کسی تیسری قوت کے سیاسی غبارے میں ضروری قسم کی ہوا بھر کے اس کو سامنے لایا جائے جس کے نتیجے میں نواز شریف پہ زیادہ دباؤ آیا اور ایک وقت میں یہ امکان بھی پیدا ہو چلا تھا کہ شاید عمران خان کے ظہور کی وجہ سے مجبور ہو کے نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا ہی لیں، تاہم ایسا بھی نہ ہو سکا۔ خصوصاً میمو گیٹ کے سکینڈل کے دوران ایک سنہری موقع پیدا کیا گیا، لیکن نواز شریف نے انتہائی غیرمتوقع طور پہ چالاکی کا ثبوت دیتے ہوئے شہ کو مات دی اور خود اس سکینڈل کے خلاف عدالت میں جا کے عمران خان کو نہ صرف بیک فٹ پہ بھیج دیا بلکہ کیس چلنے کے دوران ہی اندازہ ہوا کہ نواز شریف کا اصل مقصد زرداری حکومت کے خلاف عدالت میں جانا نہیں، بلکہ اس معاملے میں ملوث ایجنسیوں کی طبیعت صاف کرنا تھا۔ یوں میمو گیٹ اپنی موت آپ مر گیا۔
اسی کے ساتھ ساتھ عمران خان کی پارٹی میں سیاسی ہیجڑوں کے ساتھ ساتھ بہت سے مفاد پرست عناصر کی شمولیت نے پاکستان تحریکِ انصاف کی مقبولیت کو کافی حد تک متاثر کیا اور غبارے میں سے ہوا نکلنے کا عمل تو جاری ہی تھا، لیکن یہ غبارہ اس وقت تقریباً پھٹ ہی گیا، جب عمران خان نے شیخ رشید کے لیاقت باغ والے جلسے میں شرکت کر لی۔ شیخ رشید نے اس جلسے سے پہلے لیاقت باغ کو تحریر سکوائر بنانے کا دعوٰی کیا تھا، جس کی چمک دمک کے جھانسے میں آ کے حصہ وصولنے عمران خان بھی جا پہنچا، لیکن ڈیڑھ دو ہزار لوگوں کے اجتماع والے جلسے کی شکل میں عمران خان کی سیاسی خودکشی کا آغاز ہوا۔

لیکن خیر اسٹیبلشمنٹ بھی ہار ماننے والی تو نہیں۔ اب کے بوتل میں سے نیا جن نکالا گیا اور طاہرالقادری کے سیاسی مردے کو زندہ کر کے نئی چمک دمک کے ساتھ لانچ کیا گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے سوا باقی تمام عناصر کا بھی قبلہ تبدیل کئے جانے کی کوشش جاری ہے۔
ایم کیو ایم بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کھڑے ہونے کی ایکٹنگ کر رہی ہے اور کسی بھی سیاسی فائدے کی صورت میں انہی کے ساتھ کھڑی دکھائی دے گی، جبکہ غبارے میں سے ہوا نکل جانے کی صورت میں سابقہ تنخواہ پہ واپس بھی آ سکتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ق نے بھی طاہر القادری کے حق میں بیانات دے کے اپنی آپشن اوپن رکھی ہے۔ عمران خان کی جانب سے بھی ایک بیان طاہرالقادری کے حق میں اور ایک بیان خلاف دیا جا رہا ہے یعنی دونوں آپشنز اوپن ہیں۔

خلاصہ اس سب قصے کا یوں ہے کہ نواز شریف اور زرداری کا موقف یہ ہے کہ اگلے الیکشن میں انہی دونوں پارٹیوں میں مقابلہ ہو اور جوڑ توڑ جمع ووٹ کی مدد سے جو بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ سکے، وہی حکومت بنائے۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی اب یہ خواہش ہے کہ ایک تیسری سیاسی قوت مجتمع کی جائے جو کم از کم اس قابل ہو کہ اگر اکثریت حاصل نہ بھی کر سکے تو ایک معلق پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کا سبب ضرور بن جائے جیسے بارہ چودہ سال پہلے ترکی میں ہوا تھا۔ یعنی دونوں بڑی پارٹیاں اگر سو سو سے کچھ اوپر نشستیں جیت جائیں تو تیسری قوت بھی ستر سے اسی تک نشستیں ضرور جیتے۔ اس سے یہ ہو گا کہ کسی ایک پارٹی کو اکیلے اکثریت حاصل نہیں ہو گی اور وہ حکومت بنانے کے لئے دوسرے عناصر کے رحم و کرم پہ ہو گی۔ جس سے ایک کمزور حکومت سامنے آئے گی، یوں اسٹیبلشمنٹ کا پلہ بھاری رہے گا۔

ایک اور مکتبۂ فکر ابھی تک اس موقف پہ قائم ہے کہ الیکشن نہیں ہوں گے اور بنگلہ دیش یا اٹلی ماڈل سامنے آ سکتا ہے جو کہ مخلص، باکردار اور محبِ وطن ٹیکنوکریٹس پہ مشتمل ہو۔ جو آ کے دو تین سالوں میں معیشت کو درست کریں، کرپشن کرنے والوں کا احتساب کریں، سیاسی و انتخابی اصلاحات کریں اور اس کے بعد الیکشن کا سوچا جائے۔ اگر ایسا کچھ ہوا تو اس کے لئے بھی عوامی حمایت صرف تھرڈ آپشن والے عناصر سے ہی مل سکے گی یعنی عمران خان، طاہرالقادری، شجاعت حسین، ایم کیو ایم، فنکشنل لیگ ٹائپ کرداروں سے۔

اگلے کچھ ہفتوں میں منظرنامہ مزید واضح ہو جائے گا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ تب تک ہر جانب سے اندازے اور تجزیے چلتے رہیں گے۔ 

4 تبصرے:

  1. آپ کا کہنا درست ہے لیکن میری چھٹی حِس مجھے پریشان کر رہی ہے جس کا پس منظر ہیں خودکش حملے بنام طالبان ۔ کراچی کے حالات اور عمران خان کے بعد طاہرالقادری کا ظہور ۔ اور شک یہ ہے کہ اس کھیل میں پی پی پی کا نہیں مگر زرداری کا بھی کچھ کردار ہے جو اربوں لوٹ کر ان کے چھن جانے کے خوف میں مبتلاء ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. افتخار بھائی! اگر کسی تیسری یا غیرجمہوری قوت نے معاملات سنبھالنے ہیں تو ان کو بھی کرپشن کے علاوہ دوسرا اہم ترین بہانہ امن و امان کی بحالی ہی مل سکتا ہے۔
    جیسے بھٹو دور کے اختتامی دنوں میں حکومت کے خلاف نکلنے والے جلسے جلوس کافی پرتشدد ہو گئے تھے اور روزانہ بہت سی لاشیں گر رہی تھیں۔ جس کا بہانہ بنا کر ضیا نے مارشل لا لگا لیا۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. نہایت عمدہ تجزیہ ہے اور بہت مشکل ہے کہ آپ کے اس مضمون میں کسی بات سے اختلاف کیا جاسکے۔
    اس بار ایک تاریخی عمل ہونے جا رہا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا اور وہ یہ کہ ووٹ کے ذریعے سے حکومت کی تبدیلی۔۔۔ اور لگتا یہ ہے کہ یہ عمل پاکستان کی مسلح افواج سے برداشت نہیں ہو رہا کیونکہ آئینی حکومت پر شبخون کا ٹھیکہ صرف اور صرف مسلح افواج اور اسکی حمایت یافتہ صدور کے ہاتھ رہا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. شکریہ ڈاکٹر جواد بھائی۔
    آپ کی بات بالکل درست لگ رہی ہے۔ اس بار پہلی دفعہ یہ ہونے کا امکان ہے کہ پاور پالیٹیکس میں فوج کی ڈکٹیشن کے بغیر انتخابات اور نگران وزیرِاعظم وغیرہ بننے کا امکان ہے۔ جس کی وجہ سے بیک سٹیج مزاحمت کا عمل جاری ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر