جمعرات، 22 نومبر، 2012

عزا میں بہتے تھے آنسو یہاں، لہو تو نہیں

عزا میں بہتے تھے آنسو یہاں، لہو تو نہیں
یہ کوئی اور جگہ ھو گی، لکھنؤ تو نہیں

یہاں تو چلتی ہیں چھریاں زبان سے پہلے
یہ میر انیس کی، آتش کی گفتگو تو نہیں

پیر، 19 نومبر، 2012

مقتلِ فلسطین

کیفی اعظمی نے یہ نظم تقریباً تیس سال پہلے اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کے قتلِ عام کے موقع پر کہی تھی۔ افسوس کہ آج بھی یہی حالات ہیں۔ آج بھی غزہ کے گلی کوچے معصومین کے لہو سے رنگیں ہیں اور یہودی وحشت ہر جانب رقصاں ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ فلسطین کے مسلمانوں کو امن و سکون اور پنجۂ یہود سے نجات عطا فرمائے۔ آمین


مقتلِ فلسطین
اے صبا لوٹ کے کس شہر سے تو آتی ھے

ہفتہ، 17 نومبر، 2012

حکایت ایک باز اور مرغ کی

ایک جگہ پہ ایک باز اور ایک مرغ اکٹھے بیٹھے تھے۔ باز مرغ سے کہنے لگا کہ میں نے تیرے جیسا بے وفا پرندہ نہیں دیکھا۔ تو ایک انڈے میں بند تھا۔ تیرے مالک نے اس وقت سے تیری حفاظت اور خاطر خدمت کی، تجھے زمانے کے سرد و گرم سے بچایا۔ جب تو چوزہ تھا تو تجھے اپنے ہاتھوں سے دانہ کھلایا اور اب تو اسی مالک سے بھاگا پھرتا ہے۔

بدھ، 14 نومبر، 2012

کیا امریکہ ٹوٹ رہا ہے؟ خوش فہمی یا حقیقت

آج کے اخبار کی شہ سرخی کافی چونکا دینے والی ہے۔ سب سے پہلے خبر دیکھئے، جو آج یعنی ۱۳ نومبر کے جنگ اخبار کی ہے۔
Quote:
کراچی (جنگ نیوز) امریکی قانون عوام کو آزادی کا حق دیتا ہے۔ حکومت کی غلط پالیسیوں سے متاثرہ افراد کا گروہ جب چاہے اپنے لیے علیحدہ ریاست قائم کرنے کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اپنے اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے 50میں سے 20 امریکی ریاستوں کے شہریوں نے متحدہ امریکا سے علیحدگی کا مطالبہ کردیا۔ اس سلسلے میں پہل لوزیانا نے کی اور بعد ازاں ٹیکساس، الاباما، آرکانساس، کولوراڈو، فلوریڈا، جارجیا، انڈیانا، کینٹکی،مشی گن، مسی سیپی، میسوری، مونٹانا، نیوجرسی، نیویارک، شمالی کیرولینا،شمالی ڈکوٹا، اوریگون، جنوبی کیرولینا اور ٹینیسی نے بھی وائٹ ہاﺅس کی ویب سائٹ پر علیحدہ حکومت قائم کرنے کے درخواست دائر کردی

منگل، 13 نومبر، 2012

میں کہاں دفن ھوں پتہ تو چلے

 خارو خس تو اٹھیں راستہ تو چلے
میں اگر تھک گیا قافلہ تو چلے

چاند سورج بزرگوں کے نقش قدم
خیر بجھنے دو ان کو ھوا تو چلے

ہفتہ، 10 نومبر، 2012

اقبال کی ایک نظم اور ہمارے لئے پیغام

 انسان
منظر چمنستاں کے زيبا ہوں کہ نازيبا
محرومِ عمل نرگس مجبورِ تماشا ہے
رفتار کي لذت کا احساس نہيں اس کو
فطرت ہي صنوبر کي محروم تمنا ہے

جمعرات، 8 نومبر، 2012

The Man Who Knew The Future

بات میٹھی ہو یا کڑوی ہو، علم ہو جانے میں زیادہ حرج نہیں ہے۔ کیونکہ بہرحال جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہو سکتے۔ اسی چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بلاگ کو شیئر کر رہا ہوں۔ ویسے یہ کچھ ایسی نئی بات یا بریکنگ نیوز نہیں ہے، بہت سے دوستوں نے اس بابت سنا یا پڑھا ہو گا۔ تاہم اس کو اس لئے بھی شیئر کر رہا ہوں کہ شاید اگلے کچھ بلاگز میں اس کا ذکر یا حوالہ دینا پڑے۔

یہ وقت گزر جائے گا

درج ذیل واقعہ یا حکایت کہیں پہ پڑھی تھی۔ بات مختصر سی ہے، لیکن تاثر بہت سا چھوڑ گئی۔

کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی نے اپنے غلام ایاز کو ایک انگوٹھی دی اور کہا کہ اس پر ایک ایسی عبارت تحریر کرو جسے میں اگر خوشی میں دیکھوں تو غمگین ہو جاؤں