جمعہ، 21 جون، 2013

انیس سو چوراسی از جارج آرویل

1984 by George Orwell
یہ ایک غیرمعمولی ناول ہے، جس کو نقاد حضرات بیسویں صدی میں لکھے گئے فکشن کی بہترین کتابوں میں شمار کرتے ہیں۔

جارج آرویل نے یہ ناول انیس سو پچاس میں لکھا تھا۔ ناول کی سیٹنگ اس وقت کے حساب سے مستقبل یعنی انیس سو چوراسی کا زمانہ ہے۔ اور مزید سیٹنگ کچھ یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم یا کسی بڑی سی جنگ و جدل کے بعد عالمی منظرنامہ کچھ یوں ہے کہ دنیا میں تین ہی بڑے بڑے ملک ہیں، جن کو سپر سٹیٹس کہا گیا ہے۔ ان کے نام یہ ہیں

ہفتہ، 8 جون، 2013

مرڈر آف ہسٹری از کے کے عزیز

تاریخ قوموں کا اثاثہ ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تاریخ کا سنہری اور بے مثال ہونا ہرگز بھی ضروری نہیں۔ تاریخ کا صرف ایک مقصد ہے کہ اس سے سبق حاصل کیا جائے، عبرت پکڑی جائے۔ نہ کہ اس کے مثبت حصوں کا بھجن گایا جائے اور منفی حصوں کا انکار کیا جائے۔ تاریخ کا مثبت یا منفی ہونا بالکل بھی اس چیز کا ضامن نہیں ہے کہ آپ کا حال کیسا ہے، لیکن ہمارے پیشِ نظر تاریخ سچ پہ منبی ہے یا جھوٹ پہ، اس چیز کا بحیثییتِ قوم ہمارے حال پہ گہرا اثر ہے۔

بدقسمتی سے بحیثییتِ ملک یا قوم ہم بھی ایک ایسے ہی المیے سے دوچار ہیں کہ ہماری تاریخ کو ایسا توڑ مروڑ کر ہمارے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ بعض اوقات ہنسی آنے لگتی ہے۔

جمعہ، 7 جون، 2013

تبدیلی کی آمد آمد؟

ایک خبر کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف نے کے پی کے سے خواتین کی مخصوص نشستوں کے لئے خواتین کا انتخاب کرتے ہوئے چار میں سے تین نشستیں پرویز خٹک صاحب کی رشتہ دار خواتین کو دے دیں۔ سچ کہوں تو کچھ دن پہلے جب یہ خبر مختلف جگہوں پہ دیکھی تو مجھے یقین ہی نہیں آیا۔ میں نے اس کو سو فیصد جھوٹ سمجھا۔ لیکن اب جبکہ اس کا چرچا چار دانگِ عالم ہے تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ تبدیلی آ چکی ہے اور خاندانی سیاست کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اک نیا پاکستان بن چکا ہے۔ میری تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک پارٹی جس کا نعرہ ہی خاندانی سیاست سے چھٹکارا دلانا تھا، اس نے ایسا کرنے کا سوچ کیسے لیا۔