اتوار، 11 مئی، 2014

نئی سیاسی صف بندی کا آغاز؟

ویسے تو سیاسی صف بندی دائیں اور بائیں بازو کے درمیان ہوا کرتی ہے، یا انتہاپسند اور اعتدال پسند نظریات کے حامل دھڑوں کے مابین۔ لیکن پاکستان میں کچھ مختلف قسم کی سیاسی صف بندی کا بھی رواج چلتا رہا ہے، جو کئی عشروں سے مختلف ناموں اور مختلف شکلوں سے سامنے آتا رہا ہے۔ یہ ہے جمہوری اور غیرجمہوری قوتوں کی صف بندی۔

یہ صف بندی کسی حد تک زرداری حکومت کے دور میں بھی موجود تھی، جس میں نون لیگ، پی پی پی اور اے این پی وغیرہ ایک جانب تھے اور اس ایک نکتے پہ کم از کم متفق تھے کہ اب ایسے حالات پیدا نہیں کرنے کہ ایک بار پھر غیرجمہوری قوتوں (ڈائریکٹ الفاظ میں جرنیلوں) کو سیاسی بساط لپیٹنے کا موقع نہ مل سکے۔ جبکہ دوسری جانب ایسے تمام عناصر تھے کہ جن کا کوئی سیاسی قدوقامت یا تو بالکل نہیں تھا اور یا پھر بالکل محدود تھا۔ جیسے ایم کیو ایم، قاف لیگ، شیخ رشید وغیرہ

اب تازہ ترین حالات کے تناظر میں ایک بار پھر وہی سیاسی صف بندی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جرنیلوں نے یہ جان لیا ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اب موقع دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کچھ ہفتے پہلے تک عمران خان بھی ایسی ہی سوچ رکھتے دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن اچانک کہیں سے ڈوریاں ہلیں اور اچانک عمران خان کو نظام میں بہت سی خرابیاں نظر آنا شروع ہو گئیں۔ اور اتفاق سے اسی کے ساتھ ہی طاہرالقادری، قاف لیگ وغیرہ کو بھی احتجاج یاد آ گیا۔

تجزیہ نگاروں کے رائے میں یہ سب کچھ صرف موجودہ حکومت پہ دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے، تاکہ وہ زیادہ پر پھیلانے کی کوشش نہ کرنے لگ جائے اور بڑے بڑے ایشوز پہ اپنی مرضی نہ کرنے لگ جائے جیسے پاک انڈیا تجارت، خارجہ پالیسی، طالبان پالیسی وغیرہ وغیرہ۔

ویسے تو اس سب میں سیاسی لونڈوں اور ہیجڑوں کی چاندی لگنے کا امکان ہے جیسے قاف لیگ، شیخ رشید وغیرہ۔ لیکن اس کھیل کا سب سے زیادہ نقصان عمران خان اٹھائے گا۔ اس کھیل کی ٹائمنگ ہی ایسی ہے کہ اگر حقیقت سونامی صاحب ایجنسیوں کے ہاتھوں میں نہیں بھی کھیل رہے تو کسی کو بھی اس بات میں شک نہیں ہو گا کہ ان کی ڈوریں پھر سے انہی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں جا پہنچی ہیں۔ یعنی جتھے کی کھوتی اوتھے آ کھلوتی۔ اوپر سے جناب سونامی صاحب کے موقف میں ایسے ایسے نکات ہیں کہ لوگ پیٹ پہ ہاتھ رکھے کے قہقہے لگانے پہ مجبور ہوئے جا رہے ہیں۔ اس کا تذکرہ گزشتہ بلاگ میں کیا جا چکا ہے۔

اس سوال یہ ہے کہ ہو گا کیا؟
میرا اندازہ یا تجزیہ یہ کہتا ہے کہ اب حالات کافی بدل چکے ہیں اور کسی قسم کی غیرسیاسی طالع آزمائی کے لئے سازگار نہیں رہے۔ اس لئے موجودہ نظام کسی نہ کسی شکل میں چلتا رہے گا۔ تاہم کسی بھی صورتحال کو مکمل طور پہ خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس لئے میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر اب کے فوجی مداخلت ہوئی تو اگلا وزیرِ اعظم عمران خان صاحب ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں وہ ایک کٹھ پتلی وزیرِاعظم ہوں گے اور چند سال کے مصنوعی عروج کے بعد اپنی اور اپنی سونامی کی سیاسی موت کا موجب بن جائیں گے۔

1 تبصرہ:

  1. kaya aap ke mazameen Aikrozan.com pe shaya kie ja saktay hain.
    hum chahtay hain ke aap ke purfikr maqaalat ko apni site pe shaya karain. magar aap ki ijazat aur aap ka name darkaar hai.plz inform us
    niqaat@gmail.com
    0345-7776776
    plz visit our site
    Aikrozan@.com

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر