ہفتہ، 12 نومبر، 2016

اپنی ذات کا دائرہ

ایک بار میں کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے ایک بات کہی کہ مجھے پتنگ بازی، آتش بازی، کبوتر بازی وغیرہ سے سخت نفرت ہے اور میرے بس میں ہو تو اس پہ پابندی لگوا دوں۔ ایک دوست بولا کہ آتش بازی اور کبوتر بازی والی بات تو ٹھیک ہے لیکن پتنگ بازی میں تو کوئی حرج نہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا پتنگ بازی میں کوئی حرج اس لئے نہیں ہے کہ یہ تم خود بھی پسند کرتے ہو۔

اسی طرح کی مثال بانو قدسیہ نے بھی راجہ گدھ میں بیان کی ہے جو عورتوں کے بارے میں ہے کہ جو عورت پردہ کرتی ہے، وہ اس کو گناہگار سمجھتی ہے جو کہ نقاب نہیں اوڑھتی۔ جو دوپٹے سے سر ڈھانپتی ہے، وہ بال کھول کر رکھنے والی کو گناہگار کہتی ہے۔ اور بال کھول کر باہر نکلنے والی عورت ناچ گانے والی کو برا کہتی ہے۔ اور ناچ گانے والی جسم فروشی کرنے والی کو گنہگار قرار دیتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ

اسی طرح پیپسی پینے والا شراب پینے والے کو گناہگار کہتا ہے۔ جو پیپسی بھی نہیں پیتا، وہ پیپسی پینے والے کو بھی غلط کہتا ہے کہ یہ تو یہودیوں کی پراڈکٹ ہے۔

میں اگر جینز نہیں پہنتا ہوں تو اس کو غلط قرار دینا میرے لئے مشکل نہیں ہے۔ لیکن اگر میں جینز پہنتا ہوں تو میں کسی بھی دلیل کا جواب دے سکتا ہوں۔ حدیث یا فقہ کی کسی بھی تشریح و توضیح کو غیر واضح ثابت کر سکتا ہوں۔ دلائل کا انبار میرے لئے بے وزن ہے اور وہی درست ہے جو میرے عمل کے حق میں کہتا ہے۔

اگر بغور دیکھیں تو یہ برائی یا بیماری آپ کو اپنے گرد و پیش میں ہر طرف نظر آئے گی۔ 

ایسا کیوں ہے کہ ہم میں سے ہر شخص خود اپنی ذات کو سٹینڈرڈ سمجھتا اور کہتا ہے؟
 اچھائی کی حد عین اس جگہ پہ آ کے ختم ہو جاتی ہے جہاں تک ہم خود عمل پیرا ہیں۔ اس سے نیچے والے سب گناہگار یا غلط ہیں۔ 
اخلاقیات، مذہب، معاشرت، اعمال، افعال سب میں گنجائش یا چھوٹ وہیں تک ہے جہاں تک ہم عمل کرتے ہیں یا خیال کرتے ہیں۔ 
کیا ایسا ہے کہ ہم سب اپنی ذات کے دائرے سے باہر نہیں نکل پاتے؟

1 تبصرہ:

  1. بہت عُمدہ جی-
    اب اپنی ٹارچ کو چارج کر کے تھوڑی سی روشنی اس دائرے سے باہر نکلنے پر ڈال دیں جی-

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر