پیر، 28 مئی، 2012

State of Fear - Michael Crichton

مائیکل کریکٹن کا یہ ناول سات آٹھ سال قبل کے بیسٹ سیلرز میں سے ایک ہے۔ مائیکل کریکٹن کا نام اس سے پہلے اپنے بہت سے ناولز بشمول جوریزک پارک اور لوسٹ ورلڈ وغیرہ کی بدولت کافی شہرت پا چکا تھا۔

سٹیٹ آف فیئر کا موضوع ماحولیاتی تنظیموں اور گلوبل وارمنگ کے ایشوز پہ ان کی جانب سے ڈیٹا کی ان فیئر مینیپولیشن ہے۔ ویسے یہ ایک عدد تھرلر ناول ہے جو کہ امریکی شہر لاس اینجلز کی سیٹنگ میں لکھا گیا ہے۔

تاہم اس میں مصنف نے بہت بار (یعنی اتنی بار کہ ریپی ٹیشن کی وجہ سے بوریت ہونے لگے) لمبے لمبے ڈائیلاگز میں حوالہ جات کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کیسے ماحولیاتی این جی اوز فنڈ چرنے کے لئے غلط خطرات کا پروپیگنڈہ کرتی پھر رہی ہیں۔

جمعہ، 25 مئی، 2012

انجینئرنگ کیا ہے؟

میرے سے اگر کوئی یہ کہے کہ ایک لفظ میں انجینئرنگ کو بیان کریں تو میرا جواب بلاتوقف یہ ہو گا "آپٹی مائزیشن"۔

آپٹی مائزیشن کا لفظ آپ کے لئے نیا نہیں ہو گا۔ اس کی آسان ترین مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اگر آپ نے ایک کلو مٹھائی ڈالنے کے لئے ڈبہ بنانا ہو تو ڈبہ اسی سائز ہی کا بنائیں جس میں ایک کلو مٹھائی آ جائے، پانچ کلو کی کیپیسٹی کا ڈبہ بنانا ریسورسز کا ضیاع کہلائے گا۔ اسی طرح ڈبہ اتنا ہی مضبوط ہو کہ اس میں ایک کلو یا کچھ زیادہ وزن ڈالا جائے تو وہ نہ ٹوٹے۔ اس سے زیادہ مضبوطی کی ضرورت نہیں ہے۔

منگل، 15 مئی، 2012

A Thousand Splendid Suns

دی کائٹ رنر سے شہرت پانے والے افغان نژاد ناول نگار خالد حسینی کا یہ دوسرا ناول ہے جو کہ 2007 میں شائع ہوا تھا اور کافی عرصہ بیسٹ سیلر کے ٹاپ ٹین میں رہا۔ دی کائٹ رنر کی طرح یہ بھی افغانستان کی گزشتہ چار دہائیوں کی تاریخ کے بیک گراؤنڈ میں لکھا گیا ناول ہے۔ تاہم کائٹ رنر کافی زیادہ بورنگ اور سلو ٹیمپو قسم کا ناول تھا۔ اے تھاؤزنڈ سپلینڈڈ سنز اس کی نسبت بدرجہا بہتر اور گہرائی میں لکھا گیا ناول ہے جس میں بنیادی موضوع خواتین کی حالتِ زار ہے۔ جن کو نہ بادشاہ کے دور میں امان تھی، نہ کمیونسٹوں کے دور میں، نہ نام نہاد مجاہدین کے دور میں اور نہ طالبان کے دور میں۔
ناول کا نام سترھویں صدی کے فارسی شاعر صائب تبریزی کے کابل کے بارے میں اشعار کے انگلش ترجمے سے لیا گیا ہے۔

اتوار، 13 مئی، 2012

اورنگزیب عالمگیر ۔ ہیرو یا ولن؟؟

ہمارے مورخ بتاتے ہیں کہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں فتاوٰی عالمگیری پہ کام ہوا تھا، اور یہ خود ٹوپیاں سی کر گزر بسر کرتا تھا۔ اس کی وجہ سے میں بھی اس کا احترام کرتا ہوں،، یا یوں کہہ لیں کہ کرتا تھا۔

لیکن آنکھ کھول کے غور فرمایا جائے تو ایک بات جو مجھے سمجھ میں آتی ہے کہ کسی بھی حاکم کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ اس کے بعد کی تاریخ کے واقعات سے خود بخود ہو جاتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ایک مضمون نما تحریر پڑھی تھی کہ اورنگزیب نے اپنے معلم سے کچھ یوں شکوہ کیا کہ تو نے مجھے الف بے پڑھا دی لیکن دنیاوی علوم نہ سکھائے۔ تو نے مجھے فلاں فلاں سکھا دیا، لیکن فلاں فلاں نہ سکھایا۔

صرف توبہ استغفار؟؟؟

 آج ایک کالم نگار کا کالم پڑھا، جس میں ان حضرت نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ملک و قوم کی حالت اس وقت دگرگوں ہے اور اس کا حل اور علاج یہ ہے کہ سب مل کے توبہ استغفار اور دعائیں کرنا شروع کریں۔
شاید بات عجیب سی لگے لیکن مجھے یہ پڑھ کے کافی ہنسی آئی۔

میرا یہ ماننا ہے کہ اس وقت پاکستان یا مسلمان قوم کی جو حالت ہے، وہ کمزور ہونے کی وجہ سے ہے۔ اور اس کمزوری کو دور کرنے کا میری نظر میں جو رستہ ہے۔ وہ جدید علوم، سائنس، ٹیکنالوجی، سوشل جسٹس سے ہو کے گزرتا ہے۔

جمعرات، 10 مئی، 2012

شہاب نامہ پہ کچھ بات چیت

یقینا'' سب ہی اردو پڑھنے والوں نے شہاب نامہ کا نام سنا ہو گا۔ کچھ لوگ اس کتاب کو کافی پسند کرتے ہیں اور کچھ ناپسند کرتے ہیں۔ سب کے پاس اپنے اپنے پوائنٹس ہیں۔ ویسے میں بھی اس کو پسند کرنے والوں میں سے نہیں ہوں لیکن پہلے اس کے کچھ اچھے پوائنٹس لکھتا ہوں اور پھر بعد میں کچھ ایسے پوائنٹس بھی لکھوں گا جو مجھے پسند نہیں آئے۔

اچھے نکات
سب سے اچھا پوائنٹ تو اس کتاب کا ٹائم پیریڈ ہے

پیر، 7 مئی، 2012

The Kite Runner

امریکہ میں سیٹلڈ افغان ناول نگار خالد حسینی کا پہلا ناول "دی کائٹ رنر"۔   افغانستان کے گزشتہ تین چار عشروں کے حالات کے بیک ڈراپ میں لکھا گیا یہ ناول پوری دنیا میں بیسٹ سیلرز میں سے ایک رہا ہے اور اس کی ایک کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی ہیں۔ میری معلومات کے مطابق یہ کسی بھی مسلمان مصنف کی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب یا ناول ہے۔

مصنف کافی عرصے سے امریکہ میں ہی مقیم ہے، بلکہ میرا یہ اندازہ ہے کہ ناول کی امریکہ والی سیٹنگ یعنی فریمونٹ، کیلیفورنیا میں سیٹل ہونا وغیرہ، اس کا بیشتر حصہ مصنف کی خود بیتی ہی ہے۔

منگل، 1 مئی، 2012

بہاؤ ۔ مستنصر حسین تارڑ

بہاؤ ایک بہت ہی شاندار ناول ہے۔ خصوصا" تارڑ صاحب سے ناول نگاری کے بارے میں میری جو توقعات تھیں، ان سے کافی بڑھ کے ثابت ہوا۔
ناول کی سیٹنگ کئی ہزار سال قبل کے موہنجوڈرو کے علاقے کی ہے۔ جس میں بسنے والے انسانوں کی تمام تر گزر اوقات کا ذریعہ دریائے سندھ کے بہاؤ یعنی اس کے پانی کی بدولت تھا۔ اور ناول میں کافی المناک منظرکشی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کیسے دریا کا پانی سوکھتا گیا اور دریا کا بہاؤ بتدریج کم ہوتے ہوتے ختم ہو گیا۔ اور اس کے نتیجے میں اس علاقے میں کیا اثرات مرتب ہوئے۔