ہفتہ، 29 دسمبر، 2012

پاک بھارت تجارت ۔ کس کا فائدہ، کس کا نقصان؟

مولانا ابوالکلام آزاد نے قیامِ پاکستان سے بھی پہلے اپنے ایک انٹرویو میں بہت سی باتوں میں ایک بات یہ بھی کہی تھی کہ برِصغیر کا مسلمان تاجر اور صنعتکار طبقہ نااہل ہے اور اوپن مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسی لئے ان کی تمام تر ہمدردیاں اور وفاداریاں تحریکِ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہیں، تاکہ یہ نئی مملکت میں ملک اور مذہب کے نام پہ اپنی دکان چمکا سکیں۔

بدھ، 26 دسمبر، 2012

نئی سیاسی بساط کے ممکنہ خدوخال

ماضی قریب کے کچھ واقعات پہ نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب کی بار کچھ نئے طور کی سیاسی بساط بچھانے کی تیاری ہو رہی ہے اور ایک ایسا منظرنامہ سامنے آنے کا امکان ہے، جس کی ہماری سیاسی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔

ایک بات تو گزشتہ پانچ سال کے حالات سے ہی واضح ہے کہ ہماری دو بڑی سیاسی شخصیات یا پارٹی سربراہان یعنی نواز شریف اور آصف زرداری

منگل، 25 دسمبر، 2012

غزل از حافظ شیرازی

ہنگامِ نو باہر گل از بوستان جدا
یا رب مباد ہیچ کس از دوستاں جدا
تازہ بہار کے آتے وقت پھول اپنے چمن سے جدا ہو جائے۔ اے خدا ایسا وقت کبھی نہ آئے کہ کوئی اپنے دوستوں سے جدا ہو جائے۔

بلبل بنالہ در چمن آمد بہ صبح دم
از وصلِ گل ہمی شود اندر خزاں جدا

اتوار، 23 دسمبر، 2012

اِک نئی سونامی کی آمد آمد

روشن مستقبل کے خواب دیکھنے والو! تبدیلی کا یہی وقت ہے اور یہ وقت آج آن ہی پہنچا ہے۔

اہلِ وطن کے کونے کونے میں رہنے والوں کو یہ مژدۂ جاں فزا سنا دو کہ ان کی سن لی گئی ہے، ان کے برے دن گنے جا چکے۔ عہدِ خزاں قصۂ پارینہ ہونے کو ہے کہ اب تو ہر سو بہار آنے کو ہے۔

میرے عزیز ہم وطنو! اک نئی سونامی تمہاری دہلیز پہ دستک دینے کے لئے تشریف لا چکی ہے۔

ہفتہ، 22 دسمبر، 2012

دس سال بعد کی نیوز ہیڈ لائنز

دس سال بعد کی نیوز ہیڈ لائنز

۔۔۔۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماؤں نے اجلاس کے بعد اعلان کیا ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو کی قاتلوں کا پتا چلا لیا گیا ہے اور اس سال ان کی برسی پہ ان کا اعلان کر دیا جائے گا۔ ایک رپورٹر کے اس سوال پر کہ یہی بات گزشتہ پندرہ سالوں سے ہر سال تواتر سے کہی جا رہی ہے لیکن نتیجہ کچھ نہیں، جواب دیا گیا کہ شٹ اپ یو ایڈیٹ۔

جمعرات، 22 نومبر، 2012

عزا میں بہتے تھے آنسو یہاں، لہو تو نہیں

عزا میں بہتے تھے آنسو یہاں، لہو تو نہیں
یہ کوئی اور جگہ ھو گی، لکھنؤ تو نہیں

یہاں تو چلتی ہیں چھریاں زبان سے پہلے
یہ میر انیس کی، آتش کی گفتگو تو نہیں

پیر، 19 نومبر، 2012

مقتلِ فلسطین

کیفی اعظمی نے یہ نظم تقریباً تیس سال پہلے اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کے قتلِ عام کے موقع پر کہی تھی۔ افسوس کہ آج بھی یہی حالات ہیں۔ آج بھی غزہ کے گلی کوچے معصومین کے لہو سے رنگیں ہیں اور یہودی وحشت ہر جانب رقصاں ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ فلسطین کے مسلمانوں کو امن و سکون اور پنجۂ یہود سے نجات عطا فرمائے۔ آمین


مقتلِ فلسطین
اے صبا لوٹ کے کس شہر سے تو آتی ھے

ہفتہ، 17 نومبر، 2012

حکایت ایک باز اور مرغ کی

ایک جگہ پہ ایک باز اور ایک مرغ اکٹھے بیٹھے تھے۔ باز مرغ سے کہنے لگا کہ میں نے تیرے جیسا بے وفا پرندہ نہیں دیکھا۔ تو ایک انڈے میں بند تھا۔ تیرے مالک نے اس وقت سے تیری حفاظت اور خاطر خدمت کی، تجھے زمانے کے سرد و گرم سے بچایا۔ جب تو چوزہ تھا تو تجھے اپنے ہاتھوں سے دانہ کھلایا اور اب تو اسی مالک سے بھاگا پھرتا ہے۔

بدھ، 14 نومبر، 2012

کیا امریکہ ٹوٹ رہا ہے؟ خوش فہمی یا حقیقت

آج کے اخبار کی شہ سرخی کافی چونکا دینے والی ہے۔ سب سے پہلے خبر دیکھئے، جو آج یعنی ۱۳ نومبر کے جنگ اخبار کی ہے۔
Quote:
کراچی (جنگ نیوز) امریکی قانون عوام کو آزادی کا حق دیتا ہے۔ حکومت کی غلط پالیسیوں سے متاثرہ افراد کا گروہ جب چاہے اپنے لیے علیحدہ ریاست قائم کرنے کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اپنے اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے 50میں سے 20 امریکی ریاستوں کے شہریوں نے متحدہ امریکا سے علیحدگی کا مطالبہ کردیا۔ اس سلسلے میں پہل لوزیانا نے کی اور بعد ازاں ٹیکساس، الاباما، آرکانساس، کولوراڈو، فلوریڈا، جارجیا، انڈیانا، کینٹکی،مشی گن، مسی سیپی، میسوری، مونٹانا، نیوجرسی، نیویارک، شمالی کیرولینا،شمالی ڈکوٹا، اوریگون، جنوبی کیرولینا اور ٹینیسی نے بھی وائٹ ہاﺅس کی ویب سائٹ پر علیحدہ حکومت قائم کرنے کے درخواست دائر کردی

منگل، 13 نومبر، 2012

میں کہاں دفن ھوں پتہ تو چلے

 خارو خس تو اٹھیں راستہ تو چلے
میں اگر تھک گیا قافلہ تو چلے

چاند سورج بزرگوں کے نقش قدم
خیر بجھنے دو ان کو ھوا تو چلے

ہفتہ، 10 نومبر، 2012

اقبال کی ایک نظم اور ہمارے لئے پیغام

 انسان
منظر چمنستاں کے زيبا ہوں کہ نازيبا
محرومِ عمل نرگس مجبورِ تماشا ہے
رفتار کي لذت کا احساس نہيں اس کو
فطرت ہي صنوبر کي محروم تمنا ہے

جمعرات، 8 نومبر، 2012

The Man Who Knew The Future

بات میٹھی ہو یا کڑوی ہو، علم ہو جانے میں زیادہ حرج نہیں ہے۔ کیونکہ بہرحال جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہو سکتے۔ اسی چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بلاگ کو شیئر کر رہا ہوں۔ ویسے یہ کچھ ایسی نئی بات یا بریکنگ نیوز نہیں ہے، بہت سے دوستوں نے اس بابت سنا یا پڑھا ہو گا۔ تاہم اس کو اس لئے بھی شیئر کر رہا ہوں کہ شاید اگلے کچھ بلاگز میں اس کا ذکر یا حوالہ دینا پڑے۔

یہ وقت گزر جائے گا

درج ذیل واقعہ یا حکایت کہیں پہ پڑھی تھی۔ بات مختصر سی ہے، لیکن تاثر بہت سا چھوڑ گئی۔

کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی نے اپنے غلام ایاز کو ایک انگوٹھی دی اور کہا کہ اس پر ایک ایسی عبارت تحریر کرو جسے میں اگر خوشی میں دیکھوں تو غمگین ہو جاؤں

بدھ، 24 اکتوبر، 2012

خوف اور غم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

انسان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ایسی مخلوق ہے جس کے آگے شاید ہی کوئی کام ناممکن ہو۔ انسانی سوچ کی وسعت اور بلند پروازیٔ تخیل کی کوئی حد نہیں ہے۔ بے شک انسان ایک حد کے اندر تقریبا" ہر کام کر سکتا ہے لیکن وہ اس دنیا میں کچھ بھی کر لے، دو چیزیں ایسی ہیں جن سے وہ اس دنیا میں چھٹکارا نہیں پا سکتا۔ اور وہ ہیں خوف اور غم۔ اگر آپ بھی غور کریں تو آپ کو بھی محسوس ہو گا کہ آپ جتنے مرضی اچھے حالات میں ہوں

جمعرات، 18 اکتوبر، 2012

قرآن پاک کے ایک نسخے کی داستان

۔ ۔ ۔ ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں قرآن پاک کی تدوین ہوئی۔ تاریخ دانوں کی تحقیق کے مطابق اس کی حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کی تدوین کا عمل تو اس سے پہلے بھی شروع ہو چکا تھا لیکن حضرت عثمان کے دور میں قرآن پاک کی تدوین شدہ کاپیوں پر اتفاق رائے پیدا کیا گیا اور ایک متفقہ کاپی کی تدوین کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان نے قرآن پاک کے چار (ایک روایت کے مطابق سات) نسخے تیار کرائے

اور حکم دیا کہ ان ساتوں نسخوں کو ایک ایک کر کے مسجد نبوی میں بآوازِ بلند پڑھا جائے تاکہ سب سن لیں اور غلطی کا کوئی امکان یا شبہ نہ رہے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے اسلامی سلطنت جو کہ یورپ، وسطی ایشیا اور افریقہ تک پھیل چکی تھی، اس کے بڑے بڑے صوبوں میں یہ نسخے بھیجے کہ آئندہ صرف انہی سرکاری نسخوں سے مزید نقول تیار کی جائیں۔

ہفتہ، 13 اکتوبر، 2012

ہوس جاہ کی

 مختلف لوگوں سے اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ جیسے

 یار زرداری صاحب نے اتنا مال سمیٹ لیا ہے کہ اس کی نسلیں ہزاروں سال تک کھا سکتی ہیں۔ اب سکون کیوں نہیں کرتا۔ بیرون ملک جا کے چین سے کیوں نہیں جیتا۔

 مشرف صاحب اربوں روپیہ ڈکار گئے ہیں۔ اب بھی ان کو بیرونِ ملک چین کیوں نہیں آ رہا۔ کیوں پاکستان واپسی کے اعلان کرتا پھرتا ہے۔

اور ایک صاحب نے اس سب صورتحال کو ایک دلچسپ اینگل سے بیان کیا

منگل، 9 اکتوبر، 2012

لوحِ مزار دیکھ کے

لوحِ مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا

بد نام ہو کے عشق میں ہم سُرخرو ہوئے
اچھا ہوا کہ نام گیا ننگ رہ گیا

ہوتی نہ ہم کو سایۂ دیوار کی تلاش

منگل، 11 ستمبر، 2012

موتھ سموک از محسن حامد

پاکستانی ناول نگار محسن حامد کا پہلا ناول "موتھ سموک" یعنی

Moth Smoke

شہرِ لاہور کے چند کرداروں کی کہانی، جس میں کرداروں کے نام شاہ جہاں اور اورنگزیب کے دور کے مغل خاندان کے کچھ ناموں پر رکھے گئے ہیں۔ یعنی دارا، ممتاز، مراد، خرم وغیرہ۔
ناول کے پلاٹ میں مصنف نے یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح اس میں ہر شخصیت کا اپنا کردار گناہ آلود ہے اور اس کو اپنے علاوہ باقی سب میں برائی نظر آتی ہے۔

منگل، 4 ستمبر، 2012

Deception Point by Dan Brown

دی ڈاونشی کوڈ سے شہرت پانے والے بیسٹ سیلر ناول نگار ڈین براؤن کا یہ دوسرا ناول تھا جو کہ تقریبا' بارہ سال پہلے آیا تھا۔ ویسے ڈاونشی کوڈ کے بعد مجھے سب سے اچھا ناول یہی لگا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ شاید اس کی لوکیشن سیٹنگ اور اس کی مین تھیم تھی۔
اس میں پلاٹ کچھ یوں ہے کہ امریکی خلائی تحقیق کا ادارہ ناسا گرین لینڈ میں قطبِ شمالی کے قریب کچھ اس طرح کا انتظام کرتا ہے کہ پوری دنیا کو یہ ثبوت دکھایا جا سکے کہ ناسا کے سائنسدانوں نے ایکسڑا ٹیریٹوریل لائف دریافت کر لی ہے۔
اور اس ثبوت کو ایسا پرفیکٹ طریقے سے بہت سے ماہر سائنسدانوں کو دکھایا گیا کہ انہوں نے بھی تحقیق کر کے اس کی تصدیق کر دی۔

ہفتہ، 28 جولائی، 2012

پیلوں پکیاں نی ۔ خواجہ غلام فرید

آ چنوں رل یار
پیلوں پکیاں نی وے

پیلو پک گئی ہیں، میرے دوست آ جاؤ انہیں مل جل کر اکٹھا کریں

کئی بگڑیاں کئی ساویاں پیلیاں
کئی بھوریاں کئی پھِکڑیاں نیلیاں
کئی اودیاں گلنار
کٹویاں رتیاں نی وے

یہ بہت ہی خوبصورت رنگوں کی ہیں۔ ان میں کچھ سفید ہیں، کچھ سبز اور زرد ہیں، کئی بھوری اور ہلکے رنگ کی ہیں، کئی دودھیا رنگ کی ہیں اور کئی نہایت سرخ گل اناری رنگ کی ہیں

اتوار، 10 جون، 2012

چیخوف کے افسانے سے

مندرجہ ذیل اقتباس روسی زبان کے شہرہ آفاق مصنف چیخوف کی ایک کہانی سے لیا گیا ہے۔ اس میں قید یا سزائے موت پر بحث کے دوران ایک آدمی کہتا ہے کہ قید بہرحال سزائے موت سے بہتر ہے۔ بات بڑھنے پر وہ آدمی دوسروں سے شرط لگاتا ہے کہ وہ بیس لاکھ کے عوض پندرہ سال تک قیدِ تنہائی جھیلنے کو تیار ہے۔
اس قید کے دوران وہ کسی انسان سے نہ رابطہ رکھ سکے گا، نہ کسی سے بات کر سکے گا۔ صرف اس کو کتابیں مہیا کی جائیں گی۔
جو بھی وہ چاہے یا جتنی بھی مانگے، ہر قسم کی کتاب اس کو مہیا کی جائے گی۔ اس کے بعد مصنف بتاتا ہے کہ کس طرح اس نے شروع میں سنسنی خیز اور رومانوی ناولز پڑھے، اس کے بعد فلسفے، تاریخ اور مختلف زبانوں کی کتب منگوائیں۔ اس کے بعد انجیل، مذہب اور مذہبی تاریخ کی کتب۔ اور اس کے بعد شیکسپیئر، بائرن، علمِ کیمیا، طبیعیات اور نجانے کس کس قسم کی کتب پڑھتا رہا۔

بدھ، 6 جون، 2012

تیز تر گروتھ ریٹ ۔ چین کو درپیش سب سے بڑا چیلنج

اس وقت چین کو ایک ایسا چیلنج درپیش ہے جو کہ شاید کسی اور ملک کو درپیش نہیں ہے۔ اور وہ چیلنج ہے کہ

گروتھ ریٹ کیسے کم کیا جائے؟
یعنی شرحٔ ترقی کو کیسے کنٹرول میں رکھا جائے
How to reduce (or control) the growth rate

حیرت ہوئی نا!! یہ سب پڑھ کے۔ لیکن ایسا کیوں ہے، یہ بات کچھ تفصیل کی محتاج ہے۔

اجمال اس حقیقت کا یوں ہے کہ ویسے تو ہر ملک اور ہر معیشت ہی چاہتی ہے کہ اس کا گروتھ ریٹ زیادہ سے زیادہ ہو۔ لیکن اس گروتھ ریٹ کے ساتھ منسلک کچھ مسائل یا چیلنجز بھی ہوتے ہیں جن سے نمٹنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔

پیر، 28 مئی، 2012

State of Fear - Michael Crichton

مائیکل کریکٹن کا یہ ناول سات آٹھ سال قبل کے بیسٹ سیلرز میں سے ایک ہے۔ مائیکل کریکٹن کا نام اس سے پہلے اپنے بہت سے ناولز بشمول جوریزک پارک اور لوسٹ ورلڈ وغیرہ کی بدولت کافی شہرت پا چکا تھا۔

سٹیٹ آف فیئر کا موضوع ماحولیاتی تنظیموں اور گلوبل وارمنگ کے ایشوز پہ ان کی جانب سے ڈیٹا کی ان فیئر مینیپولیشن ہے۔ ویسے یہ ایک عدد تھرلر ناول ہے جو کہ امریکی شہر لاس اینجلز کی سیٹنگ میں لکھا گیا ہے۔

تاہم اس میں مصنف نے بہت بار (یعنی اتنی بار کہ ریپی ٹیشن کی وجہ سے بوریت ہونے لگے) لمبے لمبے ڈائیلاگز میں حوالہ جات کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کیسے ماحولیاتی این جی اوز فنڈ چرنے کے لئے غلط خطرات کا پروپیگنڈہ کرتی پھر رہی ہیں۔

جمعہ، 25 مئی، 2012

انجینئرنگ کیا ہے؟

میرے سے اگر کوئی یہ کہے کہ ایک لفظ میں انجینئرنگ کو بیان کریں تو میرا جواب بلاتوقف یہ ہو گا "آپٹی مائزیشن"۔

آپٹی مائزیشن کا لفظ آپ کے لئے نیا نہیں ہو گا۔ اس کی آسان ترین مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اگر آپ نے ایک کلو مٹھائی ڈالنے کے لئے ڈبہ بنانا ہو تو ڈبہ اسی سائز ہی کا بنائیں جس میں ایک کلو مٹھائی آ جائے، پانچ کلو کی کیپیسٹی کا ڈبہ بنانا ریسورسز کا ضیاع کہلائے گا۔ اسی طرح ڈبہ اتنا ہی مضبوط ہو کہ اس میں ایک کلو یا کچھ زیادہ وزن ڈالا جائے تو وہ نہ ٹوٹے۔ اس سے زیادہ مضبوطی کی ضرورت نہیں ہے۔

منگل، 15 مئی، 2012

A Thousand Splendid Suns

دی کائٹ رنر سے شہرت پانے والے افغان نژاد ناول نگار خالد حسینی کا یہ دوسرا ناول ہے جو کہ 2007 میں شائع ہوا تھا اور کافی عرصہ بیسٹ سیلر کے ٹاپ ٹین میں رہا۔ دی کائٹ رنر کی طرح یہ بھی افغانستان کی گزشتہ چار دہائیوں کی تاریخ کے بیک گراؤنڈ میں لکھا گیا ناول ہے۔ تاہم کائٹ رنر کافی زیادہ بورنگ اور سلو ٹیمپو قسم کا ناول تھا۔ اے تھاؤزنڈ سپلینڈڈ سنز اس کی نسبت بدرجہا بہتر اور گہرائی میں لکھا گیا ناول ہے جس میں بنیادی موضوع خواتین کی حالتِ زار ہے۔ جن کو نہ بادشاہ کے دور میں امان تھی، نہ کمیونسٹوں کے دور میں، نہ نام نہاد مجاہدین کے دور میں اور نہ طالبان کے دور میں۔
ناول کا نام سترھویں صدی کے فارسی شاعر صائب تبریزی کے کابل کے بارے میں اشعار کے انگلش ترجمے سے لیا گیا ہے۔

اتوار، 13 مئی، 2012

اورنگزیب عالمگیر ۔ ہیرو یا ولن؟؟

ہمارے مورخ بتاتے ہیں کہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں فتاوٰی عالمگیری پہ کام ہوا تھا، اور یہ خود ٹوپیاں سی کر گزر بسر کرتا تھا۔ اس کی وجہ سے میں بھی اس کا احترام کرتا ہوں،، یا یوں کہہ لیں کہ کرتا تھا۔

لیکن آنکھ کھول کے غور فرمایا جائے تو ایک بات جو مجھے سمجھ میں آتی ہے کہ کسی بھی حاکم کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ اس کے بعد کی تاریخ کے واقعات سے خود بخود ہو جاتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ایک مضمون نما تحریر پڑھی تھی کہ اورنگزیب نے اپنے معلم سے کچھ یوں شکوہ کیا کہ تو نے مجھے الف بے پڑھا دی لیکن دنیاوی علوم نہ سکھائے۔ تو نے مجھے فلاں فلاں سکھا دیا، لیکن فلاں فلاں نہ سکھایا۔

صرف توبہ استغفار؟؟؟

 آج ایک کالم نگار کا کالم پڑھا، جس میں ان حضرت نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ملک و قوم کی حالت اس وقت دگرگوں ہے اور اس کا حل اور علاج یہ ہے کہ سب مل کے توبہ استغفار اور دعائیں کرنا شروع کریں۔
شاید بات عجیب سی لگے لیکن مجھے یہ پڑھ کے کافی ہنسی آئی۔

میرا یہ ماننا ہے کہ اس وقت پاکستان یا مسلمان قوم کی جو حالت ہے، وہ کمزور ہونے کی وجہ سے ہے۔ اور اس کمزوری کو دور کرنے کا میری نظر میں جو رستہ ہے۔ وہ جدید علوم، سائنس، ٹیکنالوجی، سوشل جسٹس سے ہو کے گزرتا ہے۔

جمعرات، 10 مئی، 2012

شہاب نامہ پہ کچھ بات چیت

یقینا'' سب ہی اردو پڑھنے والوں نے شہاب نامہ کا نام سنا ہو گا۔ کچھ لوگ اس کتاب کو کافی پسند کرتے ہیں اور کچھ ناپسند کرتے ہیں۔ سب کے پاس اپنے اپنے پوائنٹس ہیں۔ ویسے میں بھی اس کو پسند کرنے والوں میں سے نہیں ہوں لیکن پہلے اس کے کچھ اچھے پوائنٹس لکھتا ہوں اور پھر بعد میں کچھ ایسے پوائنٹس بھی لکھوں گا جو مجھے پسند نہیں آئے۔

اچھے نکات
سب سے اچھا پوائنٹ تو اس کتاب کا ٹائم پیریڈ ہے

پیر، 7 مئی، 2012

The Kite Runner

امریکہ میں سیٹلڈ افغان ناول نگار خالد حسینی کا پہلا ناول "دی کائٹ رنر"۔   افغانستان کے گزشتہ تین چار عشروں کے حالات کے بیک ڈراپ میں لکھا گیا یہ ناول پوری دنیا میں بیسٹ سیلرز میں سے ایک رہا ہے اور اس کی ایک کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی ہیں۔ میری معلومات کے مطابق یہ کسی بھی مسلمان مصنف کی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب یا ناول ہے۔

مصنف کافی عرصے سے امریکہ میں ہی مقیم ہے، بلکہ میرا یہ اندازہ ہے کہ ناول کی امریکہ والی سیٹنگ یعنی فریمونٹ، کیلیفورنیا میں سیٹل ہونا وغیرہ، اس کا بیشتر حصہ مصنف کی خود بیتی ہی ہے۔

منگل، 1 مئی، 2012

بہاؤ ۔ مستنصر حسین تارڑ

بہاؤ ایک بہت ہی شاندار ناول ہے۔ خصوصا" تارڑ صاحب سے ناول نگاری کے بارے میں میری جو توقعات تھیں، ان سے کافی بڑھ کے ثابت ہوا۔
ناول کی سیٹنگ کئی ہزار سال قبل کے موہنجوڈرو کے علاقے کی ہے۔ جس میں بسنے والے انسانوں کی تمام تر گزر اوقات کا ذریعہ دریائے سندھ کے بہاؤ یعنی اس کے پانی کی بدولت تھا۔ اور ناول میں کافی المناک منظرکشی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کیسے دریا کا پانی سوکھتا گیا اور دریا کا بہاؤ بتدریج کم ہوتے ہوتے ختم ہو گیا۔ اور اس کے نتیجے میں اس علاقے میں کیا اثرات مرتب ہوئے۔

بدھ، 25 اپریل، 2012

طاؤس و رباب اول

  آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی ذیل میں دی گئی تصویر دیکھ کے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب حکمرانوں کے لئے طاؤس و رباب اول ہو جائے، سائنس و ٹیکنالوجی کی بجائے شاعری اور موسیقی کو فوقیت ہو تو پھر کیا انجام ہو سکتا ہے۔

پیر، 23 اپریل، 2012

The Alchemist

 The Alchemist by Paulo Coelho
کو بلاشبہ دنیا کی بہترین کلاسیکس میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے جتنی بھی کتابیں یا ان کے ریویوز پڑھے ہیں، اس کی بنیاد پہ یہ کہنا زیادہ غلط نہیں ہو گا کہ کم از کم گزشتہ ایک سو سال میں دی الکیمسٹ جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ یہ ایسی شاندار کتاب ہے کہ اس کو جتنا آہستہ اور بار بار پڑھا جائے، اتنا ہی لطف ملتا ہے۔ عہدِ حاضر میں دی الکیمسٹ جیسی اور کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔

یہ بلاشبہ معجزۂ فن کی حدوں کو چھوتی ہوئی کتاب ہے۔

جمعرات، 19 اپریل، 2012

بابائے کے ایف سی ۔ کرنل ہارلینڈ سینڈرز

تقریباً ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ترقّی کرے اور نام بنائے۔ زندگی کچھ انسانوں کو اس کے مواقع دیتی ہے۔ کچھ لوگ ان مواقع سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں، کچھ اس میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ لیکن انسانوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو کہ مواقع کی تلاش یا انتظار میں نہیں رہتے بلکہ خود سے اپنے لئے مواقع پیدا کر لیتے ہیں۔ کرنل ہارلینڈ سینڈرز بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں۔
تقریباً سب نے ہی 'کے ایف سی' کے سائن بورڈز یا اس کے لوگوز پر بنی ایک بوڑھے شخص کی تصویر دیکھی ہو گی۔

اتوار، 15 اپریل، 2012

مقدّمہ از ابنِ خلدون

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مقدّمہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ یہ آج سے تقریبا" ساڑھے سات سو سال پہلے لکھا گیا وہ شاہکار ہے جس کی قدر و قیمت کو زمانے نے کافی بعد میں جانا۔
نامور مورخ ابنِ خلدون 1332 میں پیدا ہوا اور 1406 میں وفات پائی۔ اس نے بہت سی جلدوں پر مشتمل تاریخ کی کتاب مرتب کی جو کہ تاریخِ ابنِ خلدون کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ابنِ خلدون نے اسی کتاب کا ابتدائیہ (جو کہ مقدّمہ یعنی preface کہلاتا ہے) بھی لکھا۔