بدھ، 23 جنوری، 2013

تاریخ اور جھوٹ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بستی میں دو بھائی رہتے تھے۔ والدین کی وفات کے بعد دونوں بھائیوں نے کچھ بات چیت کے بعد جائیداد کو تقسیم کر لیا اور الگ الگ ہنسی خوشی رہنے لگے۔ کئی دہائیوں کے بعد ان کے بچے والدین سے سوال کرتے کہ آپ دونوں الگ کیوں ہوئے۔ اس پہ ان کو جواب ملتا کہ ہم نے سوچا کہ اکٹھے رہیں گے تو جھگڑے بڑھیں گے، خواہ مخواہ کی چخ چخ ہو گی۔ تو بہتر ہے کہ الگ الگ رہ لیں۔

دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ

جمعہ، 18 جنوری، 2013

ڈرامۂ لانگ مارچ کا سکرین پلے بمعہ ڈراپ سین

ابے سن! تجھے میرا مطالبہ تسلیم کرنا ہی ہو گا۔

بھائی آپکا مطالبہ ہے کیا؟

میرا مطالبہ یہ ہے کہ میں سیاست نہیں، ریاست بچانا چاہتا ہوں۔

یہ تو مشکل ہے سرکار۔

تو پھر لانگ مارچ ہو گا۔

بدھ، 16 جنوری، 2013

عمران خان کا شاندار چھکا

میں عمران خان کی گزشتہ بارہ تیرہ سال کی سیاست کا بہت بڑا ناقد رہا ہوں اور اب بھی ہوں۔ میرے خیال میں اچھے لیڈر کا اصل پتا اس کے فیصلوں اور فیصلوں کی ٹائمنگ سے چلتا ہے۔ کیونکہ یہی وہ پہلو ہے جس سے اس کی سیاسی بصارت اور دور اندیشی کا ادراک ہوتا ہے۔ اور افسوس ناک بات یہ کہ یہی وہ پہلو ہے، جس میں عمران خان نے زیادہ تر مایوس ہی کیا ہے۔ مثلاً جب مشرف نے اقتدار پہ قبضہ کیا تو عمران خان ان معدودے چند میں سے تھا

منگل، 15 جنوری، 2013

لانگ مارچ ۔ پہلا مرحلہ کامیاب ؟؟

پاکستانی سیاست پہ گزشتہ تین چار ہفتوں سے کینیڈا پلٹ مولانا صاحب کی اچانک لیکن "بروقت" آمد کے اثرات چھائے ہوئے ہیں۔ قادری صاحب کے ایجنڈے، ان کے وسائل، ان کے فنانسر، ان کے مطالبات پہ ایک مسلسل بحث چلے جا رہی ہے۔
ایک عمومی تأثر یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستانی سول سوسائٹی کے زیادہ تر عناصر یعنی میڈیا، وکلاء، سیاسی جماعتیں وغیرہ قادری صاحب کے اچانک ظہور کے پسِ پردہ مقاصد کو بھانپ چکے ہیں اور سوائے شیخ رشید نما سیاسی لونڈوں کے کسی نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔

اتوار، 13 جنوری، 2013

لانگ مارچ ۔ ایک خطرناک کھیل کا آغاز؟

پاکستان میں تازہ ترین درآمد کردہ سونامیٔ ثانی المعروف شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ارضِ پاک پہ وارد ہونے سے بعد سے محیرالعقول واقعات، بیانات اور اقدامات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے کہ چلے ہی جا رہا ہے۔ 
کبھی لندن والے قائدِ تحریک صاحب اپنے آپ پہ ہی ڈرون حملہ کرتے دکھائی دیئے ہیں تو کہیں چوہدری برادران جیسے سیاسی لونڈے اپنی آنیاں جانیاں دکھا کے سیاسی مطلع پہ اپنا جلوہ بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔

جمعرات، 3 جنوری، 2013

ایم کیو ایم اور طلاقِ رجعی کا بیان!!

نجانے کتنی بار یہ ڈرامہ کھیلا جا چکا ہے۔ اب تو اس کا شمار بھی مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن گزشتہ ساڑھے چار، پانچ سالوں میں ہر سال ایک سے زیادہ دفعہ یہ ڈرامہ کم و بیش اسی ترتیب سے دہرایا جاتا ہے۔
آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے اچانک بغیر کسی فوری وجہ کے زرداری حکومت کو آنکھیں دکھائی جاتی ہیں۔ کچھ بار تو ایم کیو ایم کے وزراء نے عہدے بھی چھوڑ دیئے۔