ہفتہ، 12 نومبر، 2016

اپنی ذات کا دائرہ

ایک بار میں کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے ایک بات کہی کہ مجھے پتنگ بازی، آتش بازی، کبوتر بازی وغیرہ سے سخت نفرت ہے اور میرے بس میں ہو تو اس پہ پابندی لگوا دوں۔ ایک دوست بولا کہ آتش بازی اور کبوتر بازی والی بات تو ٹھیک ہے لیکن پتنگ بازی میں تو کوئی حرج نہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا پتنگ بازی میں کوئی حرج اس لئے نہیں ہے کہ یہ تم خود بھی پسند کرتے ہو۔

اسی طرح کی مثال بانو قدسیہ نے بھی راجہ گدھ میں بیان کی ہے جو عورتوں کے بارے میں ہے کہ جو عورت پردہ کرتی ہے، وہ اس کو گناہگار سمجھتی ہے جو کہ نقاب نہیں اوڑھتی۔ جو دوپٹے سے سر ڈھانپتی ہے، وہ بال کھول کر رکھنے والی کو گناہگار کہتی ہے۔ اور بال کھول کر باہر نکلنے والی عورت ناچ گانے والی کو برا کہتی ہے۔ اور ناچ گانے والی جسم فروشی کرنے والی کو گنہگار قرار دیتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ

بدھ، 2 نومبر، 2016

اب روز گوشت پکے گا!

بحیثیتِ قوم ہمارے گوں ناگوں مسائل میں ایک مسئلہ ہمارے اس ذہنی رجحان کا بھی ہے کہ ہر چیز کو شارٹ کٹ میں تلاش کرتے ہیں۔ ہر مسئلے کا حل کسی معجزے میں دیکھتے ہیں۔ بس کچھ ایسا ہو جائے تو پھر تمام مسائل سے مکمل نجات۔

بہت پہلے پی ٹی وی پہ ایک ڈرامہ آیا کرتا تھا جس میں ایک کیریکٹر کا تکیہ کلام تھا کہ "اب روز گوشت پکے گا"۔ جس کا استعمال وہ ہر چھوٹی بڑی چیز کے ساتھ نتھی کر کے کرتا تھا۔ جیسے میری نوکری لگ جائے پھر روز گوشت پکے گا۔ ایک بار ہماری گلی پکی ہو جائے پھر روز گوشت پکے گا۔ بیٹا میٹرک پاس کر لے پھر روز گوشت پکے گا۔ پاکستان میچ جیت جائے پھر روز گوشت پکے گا۔ وغیرہ وغیرہ

مجھے لگتا ہے کہ من حیث القوم ہمارا حال بھی تقریباً اس کیریکٹر جیسا ہو چکا ہے۔ یار لوگوں کو تمام تر ملکی و قومی سطح کے مسائل کا حل کسی ایک وقوعے، کسی ایک معجزے، کسی ایک آرزو کی تکمیل میں دکھائی دیتا ہے۔

اتوار، 25 ستمبر، 2016

جنگ

جنگ کوئی شطرنج کی بازی نہیں ہوتی۔ کرکٹ نہیں جس میں فاتح کو ورلڈکپ مل جائے۔ ٹینس کا میچ نہیں جس میں ومبلڈن کا چیمپیئن وہ کہلائے جو اپنے حریف کو ہرا دے۔ جنگ صرف جنگ ہوتی ہے۔ جنگ صرف تباہی اور خرابی لاتی ہے۔ اس کے لئے بھی جو سمجھتا ہے کہ وہ جیت گیا اور ہارنے والے کے لئے بھی۔ جنگ نفرت سے پھوٹنے والا ببول ہے جس میں صرف کانٹے نکلتے ہیں۔ یا ایھاالابصار۔ اے آنکھیں رکھنے والو! اور عقل رکھنے والو۔ تمہارے لئے اس میں سیکھنے کو اور سمجھنے کو بہت کچھ ہے۔ پھر تم کیوں امن اور محبت کے بیج نہیں بوتے۔ کیوں دلوں کی زمین کو ہوس سے پاک کر کے قناعت سے آبیاری نہیں کرتے کہ جب پیار کے خوش رنگ پھول کھلیں تو تم کو یہ دنیا بھی جنت ہی محسوس ہو۔

(احمد اقبال کے ناول شکاری سے اقتباس)

ہفتہ، 14 مئی، 2016

دو اسلام از ڈاکٹر غلام جیلانی برق - 1

کچھ عرصہ قبل جارج آرویل جیسے نابغہ روزگار اور جینئس کی کتاب پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ کیا اس طرح کا کوئی جینئس ہمارے ہاں بھی پیدا ہوا ہو گا۔ کافی غور کیا، لیکن کوئی خاص نام ذہن میں نہ آیا۔ پھر ایک دن ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب دو اسلام کے بارے میں پڑھنے کو ملا۔ ابھی صرف ابتدائیہ ہی پڑھا کہ فوراؐ دل سے آواز نکلی کہ ہاں ہمارے ہاں بھی جینئس لوگ ضرور پیدا ہوئے ہیں۔ یہ اور بات کہ ایک مخصوص ذہنی یا طبعی رجحان رکھنے کی بدولت ہم لوگوں نے ان کی قدر کرنے کی بجائے ان کو ملعون و مطعون ٹھہرایا یا وہ لوگ گمنامی وغیرہ میں ہی مر گئے۔
چند روز قبل میں نے پوری کتاب (یعنی دو اسلام) بھی پڑھ لی۔ اس پہ تفصیل میں لکھا جا سکتا ہے۔ تاہم اس بلاگ میں صرف اس کتاب کے ابتدائیے کو ہو بہو شامل کر رہا ہوں۔ بعد میں انشاءاللہ دوسرے حصے میں کتاب کی بابت کچھ تبصرہ بھی شامل کروں گا۔

پیر، 25 اپریل، 2016

فورٹی رولز آف لو از ایلف شفق

ترک نژاد مصنفہ ایلف شفق کا ناول فورٹی رولز آف لو پہلی دفعہ 2009 یا 2010 میں شائع ہوا تھا۔ لیکن نجانے کیوں اس ناول نے گزشتہ دو تین سالوں میں زیادہ شہرت پائی ہے۔ کچھ احباب سے اس ناول کی شہرت سن کر میں نے بھی آخرکار اس کو پڑھ ہی ڈالا۔ اگر پہلے سے کچھ علم یا ریویو نہ ہو تو اس ناول کا نام کافی مس لیڈنگ ہو سکتا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ رومانوی یا ازدواجی زندگی میں کامیابی کا نسخہ لئے ہوئے کوئی کتاب ہو گی۔ تاہم اس کتاب کا موضوع کافی مختلف اور چونکا دینے والا ہے۔ فورٹی رولز آف لو کی کہانی دراصل دو مختلف ادوار یا دو مختلف دنیاؤں میں چلنے والی دو کہانیوں کو ساتھ لے کے چلتی ہے۔

منگل، 19 اپریل، 2016

مزید حماقتیں از شفیق الرحمٰن سے اقتباس

ذیلی اقتباس اس کتاب کے پہلے باب یعنی "تزکِ نادری" سے لیا گیا ہے۔

حملہ آوری اور برادر محمد شاہ کی ہماری ذات سے عقیدت
صبح سے محمد شاہ اپنا لشکر لے کر سامنے آیا ہوا تھا، مگر ابھی تک سعادتِ زیارت سے مشرف نہ ہوا تھا۔ دوپہر کو ایک ایلچی رنگین جھنڈا لہراتے ہوئے آیا اور معروض ہوا کہ "محمد شاہ صاحب نے دریافت کیا ہے کہ حملہ کرنے کا کس وقت ارادہ ہے؟" ہم نے پوچھا "ابے حملہ کیسا؟" ایلچی نے عرض کیا "خداوندِ نعمت وہ تو عرصے سے آپ کے حملے کے منتظر ہیں۔ اتنے دنوں سے تیاریاں ہوتی رہی ہیں۔ اگر حملہ نہ ہوا تو سب کو سخت مایوسی ہو گی۔ کل بارش کی وجہ سے لشکر اکٹھا نہ ہو سکا۔ اور پھر یہ رسم چلی آتی ہے کہ درہ خیبر سے آنے والے۔۔۔"
"بس بس! آگے ہمیں پتا ہے۔" ہم نے اسے ڈانٹا۔

منگل، 5 اپریل، 2016

پاکستان کرکٹ کا مسئلہ کیا ہے؟

حالیہ ٹی20 ورلڈکپ میں شرمناک شکست کے بعد یار لوگ مختلف قسم کے حل پیش کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ویوین رچرڈز کو کوچ لگوا دو، کوئی ڈین جونز اور کوئی وسیم اکرم کو کوچ بنانے میں کرکٹ کی بہتری دیکھ رہا ہے۔

اس ضمن میں میری رائے ان سے کچھ مختلف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کرکٹ کے مسائل ان تکنیکی باریکیوں سے کہیں بڑے اور گھمبیر ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ احتساب کا ہے کہ یہاں کسی کو ڈر نہیں کہ کوئی پوچھے گا۔ کھلاڑی اپنی من مانی کرتے ہیں اور بورڈ انتظامیہ بشمول سلیکشن کمیٹی ایسے فیصلے کرتے ہیں کہ چارلی چپلن یا امان اللہ جیسے کامیڈین کو بھی مات کرتے ہیں۔ ماضی قریب کی مثال ہی دیکھ لیں کہ کیسے انہوں نے رفعت اللہ مہمند کا مردہ قبر سے نکال کے اس کو ٹی20 کھلا لیا۔یا خرم منظور کو ٹی20 میں اور یونس خان کو ون ڈے ٹیم میں ڈال دیا۔

بدھ، 30 مارچ، 2016

داعش کی پسپائی کا آغاز؟

صرف چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ داعش یا اسلامی سٹیٹ کے نام سے مشہور شدت پسند تنظیم نے عراق اور شام کے وسیع علاقے پر قبضہ کر کے اس پہ اپنی حکومت قائم کی ہوئی تھی۔ ان علاقوں پہ داعش کا نفوذ یا ہولڈ اس قدرتھا کہ اس علاقے کو ایک طرح سے ڈی فیکٹو سٹیٹ قرار دیا جا رہا تھا، جس کی اپنی معیشت، پولیس اور سرحدی چوکیاں وغیرہ تھیں۔ داعش کی جنگی یا جغرافیائی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ بیس لاکھ سے زیادہ آبادی والا شہر موصل بھی ان کے قبضے میں تھا۔

ہفتہ، 26 مارچ، 2016

آبِ گم از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس

سب سے زیادہ تعجب انہیں اس زبان پر ہوا جو تھانوں میں لکھی اور بولی جاتی ہے۔ رپٹ کنندگان کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن منشی جی ایک شخص کو (جس پر ایک لڑکی سے زبردستی نکاح پڑھوانے کا الزام تھا) کو عقدبالجبرکنندہ کہہ رہے تھے۔ عملے کی آپس کی گفتگو سے انہیں اندازہ ہوا کہ تھانہ ہٰذا نے بنی نوع انسان کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک وہ جو سزایافتہ ہیں۔ اور دوسرے وہ جو نہیں ہیں، لیکن ہونے چاہییں۔ ملک میں اکثریت غیرسزایافتہ لوگوں کی ہے اور یہی بنائے فتور و فساد ہے۔
گفتگو میں جس کسی کا بھی ذکر آیا، وہ کچھ نہ کچھ "یافتہ" یا "شدہ" ضرور تھا۔ شارع عام پر مشکوک حرکات پر جن دو عورتوں کو گرفتار کیا گیا تھا، ان میں سے ایک کو اے ایس آئی شادی شدہ

اتوار، 21 فروری، 2016

تاریخ اور مبالغہ ۔ ابنِ خلدون کی نظر سے

تاریخ کا فقط ایک مصرف ہے اور وہ یہ کہ اس سے سبق حاصل کیا جائے، عبرت پکڑی جائے، اور اس کی روشنی میں اپنے مستقبل کی راہوں کا تعین کیا جائے۔ بدقسمتی سے من حیث القوم ہم نے تاریخ کا مصرف یہ نکالا ہے کہ اس کے خوشگوار حصوں کا بھجن گایا جائے اور اس کے ناخوشگوار حصوں کا انکار کیا جائے، اور اگر خوشگوار حصوں کی کمی محسوس کریں تو حسبِ توفیق اس میں مبالغہ آرائی کا تڑکا لگانے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ لیکن تاریخ اور تواریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ چلن صرف ہمارا یا عہدِ حاضر کا ہی نہیں ہے، بلکہ ہمیشہ سے تاریخ میں من پسند و من گھڑت فسانہ نویسی شامل کی جاتی رہی ہے۔