ہفتہ، 17 اگست، 2013

دی سٹینڈ از سٹیفن کنگ

سٹیفن کنگ انگلش فکشن ناول نگاروں میں ایک کافی مشہور و معروف نام ہے اور ان کے بہت سے ناولز بیسٹ سیلر کی فہرستوں میں جگہ پا چکے ہیں۔ میں نے اس سے پہلے سٹیفن کنگ کا کوئی ناول نہیں پڑھا تھا تو سوچا کہ کم از کم ایک ناول ضرور پڑھ لیا جائے، جس سے انہی کے مزید ناولز پڑھنے کے بارے میں فیصلہ کرنے میں بھی سہولت ہو گی۔ سٹیفن کنگ کے ناولز کی فہرست پہ نظر دوڑائی تو سب سے مشہور اور ٹاپ ریٹڈ نام "دی سٹینڈ" کا پایا، چنانچہ اس کو پڑھ ہی ڈالا۔

دی سٹینڈ کے بارے میں سٹیفن کنگ کا خود یہ کہنا ہے کہ میں نے بہت عرصے سے سوچا تھا کہ لارڈ آف دی رنگز کی طرز پہ ایک ناول لکھوں جس کی جغرافیائی سیٹنگ امریکہ کی ہو۔ اگرچہ کہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لارڈ آف دی رنگز سے کافی پہلوؤں سے مختلف ہے، جیسے یہ اس کے سب کردار انسانی ہیں، زمانہ بھی حال ہی کا ہے، اور کسی حد تک اس کو سائنس فکشن بھی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ کچھ پہلو اس کو لارڈ آف دی رنگز کی جینرے میں بھی جگہ دلاتے ہیں۔ جیسے کہ اچھائی اور برائی کی قوتوں کی مکمل صف بندی کے ساتھ کشمکش اور تصادم، طویل ایپیکل قسم کی سٹوری لائن وغیرہ وغیرہ۔

اس ناول کی بنیادی تھیم کچھ یوں ہے کہ امریکہ کی ایک دفاعی ریسرچ کی تنصیب جس میں ایک خطرناک وائرس پہ کام ہو رہا ہے، وہاں سے ایک سیکورٹی بریچ کی وجہ سے وائرس باہر پھیل جاتا ہے اور کنٹرول کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود پورے امریکہ (اور شاید پوری دنیا) میں پھیل کر ننانوے فیصد انسانوں کو چند دنوں میں ہلاک کر دیتا ہے۔ ایک فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں اس وائرس سے قدرتی امیونیٹی پائی جاتی ہے، تو وہی زندہ بچتے ہیں۔ اب ناول میں خاصی تفصیل اور درجنوں کرداروں کی سینکڑوں پیجز کی کہانی بیان کر کے بتایا گیا کہ کیسے تمام برے لوگ ایک جگہ یعنی لاس ویگس میں مرکوز ہوتے ہیں اور دوسری جانب اچھے لوگ ریاست کولوریڈو کے شہر بولڈر میں جا جمع ہوتے ہیں۔ دونوں اطراف کو اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ ہو کے رہے گی، جس میں نیوکلیئر سے لے کر ہر قسم کا ہتھیار استعمال ہو سکتا ہے۔ اسی کے تناظر میں ہیرو پارٹی کے کچھ بندے بولڈر سے نکلتے ہیں کہ دشمن کا جا کے لاس ویگس میں ہی بندوبست کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان میں سے کچھ لاس ویگس میں پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور وہاں جو کچھ ہوتا ہے، اس کے لئے خود بھی ناول پڑھئے۔

اب کچھ تبصرہ اس ناول کے بارے میں۔
ایک تو یہ کہ ناول کافی طویل ہے۔ اس کو پڑھنا کافی ہمت کا اور کافی صبر آزما کام ہے۔ اوپر سے میں نے اس کا تفصیلی ایڈیشن پڑھ لیا جو کہ کنگ نے بہت سال بعد لکھا۔ اس میں کہانی کو مزید باریکی میں اور تفصیل سے بیان کیا گیا اور یوں مجموعی طور پہ سترہ سو سے زیادہ صفحات کا ناول بن گیا۔ یوں اس کو پڑھنا اچھا خاصا ٹائم ٹیکنگ کام بن گیا۔
ایک اور پہلو جو مجھے زیادہ پسند نہیں آیا، وہ یہ کہ اتنی لمبی چوڑی سیٹنگ بنا کے دونوں سائیڈز کی بولڈر اور لاس ویگس میں صف بندی بھی کروا کے جس جنگ یا تصادم کا کافی پہلے سے تذکرہ کیا جا رہا تھا، وہ صحیح معنوں میں منعقد ہی نہیں ہوا۔ بس ایک ایٹمی دھماکہ ہوا اور سب ختم۔ یوں پندرہ سولہ سو صفحات کا کشٹ کاٹ کے جس سنسنی خیز اینڈ کی توقع تھی، وہ ہوا نہیں۔
اسی طرح کہانی میں کچھ کمزور پہلو بھی محسوس ہوئے۔ مثلا" ایک یہ کہ امریکہ کے علاوہ باہر کی دنیا کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا کہ وہاں کا کیا بنا۔ کون مرا تو کون بچا وغیرہ وغیرہ۔

اور ناول کے مثبت پہلوؤں کی بات کی جائے تو وہ بھی بہت سے ہیں۔
جیسے کہ کہانی کی سیٹنگ کافی عمدہ ہے۔ اور کہانی کا فلو بھی بہت اچھی تفصیل سے بتدریج طریقے سے دکھایا گیا ہے۔
یہ ناول پڑھنے کے لئے ریکمنڈڈ ہے، اگر کچھ ایکسڑا وقت ہو تو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر