کوئی سال دو پہلے کی بات ہے۔ ایپل کمپنی کے مشہورِ زمانہ بانی سٹیو جابز کی وفات کی خبر سنی تو بہت سے لوگوں کا یہ کمنٹ سننے یا پڑھنے کا موقع ملا کہ امریکہ خوش قسمت ہے کہ اس میں سٹیو جابز جیسے لوگ پیدا ہوئے۔ ایسے کمنٹس کو سن کے یا پڑھ کے جو پہلا خیال میرے ذہن میں آیا، وہ یہ تھا کہ خوش قسمت امریکہ نہیں کہ اس میں سٹیو جابز پیدا ہوا۔ بلکہ خوش قسمت سٹیو جابز تھا کہ وہ امریکہ میں پیدا ہو گیا۔
ذرا سوچیئے کہ اگر سٹیو جابز صاحب شومئیِ قسمت سے ہمارے یہاں پیدا ہو جاتے۔ اول تو سکول کالج کے لیول پہ ہی جناب کا سارا ذوق و شوق و جستجو مر کھپ چکے ہوتے۔ محترم کوئی چھوٹی موٹی اور سچی یا جھوٹی ڈگری کما کے ریلوے یا واپڈا میں اچھی سی نوکری لگنے کے اور پھر چاند سی بہو لانے کے سپنوں سے ہی باہر نہ آ پاتے۔
اگر کسی معجزے کی مدد سے وہ ایپل یا آئی فون جیسا کوئی آئیڈیا سامنے لے بھی آتا تو یا تو بھی ہمارے ٹیلنٹ ہنٹنگ (یہ دوسرے والا ہنٹ ہے) نظام نے اس کی وہ درگت بنانی تھی کہ جناب عمر بھر یاد رکھتے اور یہ غزل بھی گاتے کہ
یا رب مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا
اور کچھ نہیں تو ایک طبقے نے ایسی کسی بھی ایجاد پہ کفریہ و غیراسلامی کی تہمت لگانی تھی اور کسی نے اس پہ یہود و ہنود کی سازش کا الزام دھرنا تھا۔ جنابِ طالبان نے اس پہ اس ایجاد کی مدد سے نوجوانوں کو جہاد سے دوری پہ مائل کرنے کی مہر لگانی تھی۔ اور شاید کوئی خودکش حملہ کامیاب ہو ہی جاتا۔ یا اگر بچ جاتا اور کسی طرح یہاں سے بچ کے نکالا جاتا تو اس کا وہی ہونا تھا، جو یار لوگوں نے ملالہ کا کیا۔ یوں ایک نیا سٹیو جابز یوسفزئی وجود میں آ جاتا۔
خیر یہ سب تو کسی حد تک مذاق کے پیرائے میں عرض کیا ہے۔ اصل غور طلب بات وہی ہے کہ خوش قسمت کون ہے۔ امریکہ یا سٹیو جابز؟
آپ عہدِ حاضر کی کسی بھی چیز پہ نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ایجادات و نظریات وغیرہ یعنی انوینشنز اینڈ تھیوریٹکل سٹڈیز میں یورپیئن ممالک کا نمایاں کردار نظر آتا ہے، لیکن جن جن چیزوں کے پیچھے نئی ایجادات کی بجائے صرف آئیڈیاز کا عمل دخل ہے، وہ تقریبا" سب کی سب امریکہ سے متعلق ہیں۔ چاہے فاسٹ فوڈ ہو، چاہے سوفٹ ڈرنکس ہوں، چاہے انٹرنیٹ ہو، ڈسپوزیبل ریزر ہو،سپر سٹورز ہوں، بچوں کے ڈائپرز ہوں یا کچھ بھی اور۔
اس کی وجہ کیا ہے؟
اس کی وجہ ان کا نظام ہے۔ جو انسانی دماغ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ جہاں حسب نسب اور مال و دولت کی بنیاد پہ تو لوگوں کو عزت و احترام حاصل ہے ہی، لیکن عقل و دانش و دماغ کی بنیاد پہ بھی ہے۔ تمام بڑی بڑی امریکی کمپنیوں کی تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو اندازہ یہ ہوتا ہے کہ ایک عام، متوسط یا غریب بندے کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا اور اس نے اس کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھانی تو ان کے وسیع الذہن معاشرے اور نظام نے نہ صرف اس کو قبول کیا بلکہ کی اس کی اثرپذیری کے حساب سے اس کی مارکیٹنگ کو عروج تک بھی پہنچایا۔ ذرا کھنگالئے تاریخ
کے ایف سی کی
پزا ہٹ کی
سب وے کی
جیلیٹ کی
وال مارٹ کی
ہنری فورڈ کی
مائکروسوفٹ کی
ایپل کی
ایمیزون کی
ای بے کی
گوگل کی
یاہو کی
فیس بک کی
یوٹیوب کی
اور انہی جیسی نجانے کتنی ہی اور کمپنیاں اور ادارے جو کہ صرف ایک آئیڈیا کی بنیاد پہ وجود میں آئے۔ ان میں کوئی ایجاد نہیں تھی۔ کوئی فزکس، کیمسٹری یا بائیولوجی کا خاص عمل دخل نہیں تھا۔ یہ صرف آئیڈیاز تھے۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ سب اس وقت دنیا پہ صرف اور صرف اس وجہ سے چھائے ہوئے ہیں کہ یہ سب آئیڈیاز امریکہ میں شروع ہوئے۔
لہٰذا خوش قسمت امریکہ نہیں، خوش قسمت یہ سب ہیں۔
ذرا سوچیئے کہ اگر سٹیو جابز صاحب شومئیِ قسمت سے ہمارے یہاں پیدا ہو جاتے۔ اول تو سکول کالج کے لیول پہ ہی جناب کا سارا ذوق و شوق و جستجو مر کھپ چکے ہوتے۔ محترم کوئی چھوٹی موٹی اور سچی یا جھوٹی ڈگری کما کے ریلوے یا واپڈا میں اچھی سی نوکری لگنے کے اور پھر چاند سی بہو لانے کے سپنوں سے ہی باہر نہ آ پاتے۔
اگر کسی معجزے کی مدد سے وہ ایپل یا آئی فون جیسا کوئی آئیڈیا سامنے لے بھی آتا تو یا تو بھی ہمارے ٹیلنٹ ہنٹنگ (یہ دوسرے والا ہنٹ ہے) نظام نے اس کی وہ درگت بنانی تھی کہ جناب عمر بھر یاد رکھتے اور یہ غزل بھی گاتے کہ
یا رب مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا
اور کچھ نہیں تو ایک طبقے نے ایسی کسی بھی ایجاد پہ کفریہ و غیراسلامی کی تہمت لگانی تھی اور کسی نے اس پہ یہود و ہنود کی سازش کا الزام دھرنا تھا۔ جنابِ طالبان نے اس پہ اس ایجاد کی مدد سے نوجوانوں کو جہاد سے دوری پہ مائل کرنے کی مہر لگانی تھی۔ اور شاید کوئی خودکش حملہ کامیاب ہو ہی جاتا۔ یا اگر بچ جاتا اور کسی طرح یہاں سے بچ کے نکالا جاتا تو اس کا وہی ہونا تھا، جو یار لوگوں نے ملالہ کا کیا۔ یوں ایک نیا سٹیو جابز یوسفزئی وجود میں آ جاتا۔
خیر یہ سب تو کسی حد تک مذاق کے پیرائے میں عرض کیا ہے۔ اصل غور طلب بات وہی ہے کہ خوش قسمت کون ہے۔ امریکہ یا سٹیو جابز؟
آپ عہدِ حاضر کی کسی بھی چیز پہ نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ایجادات و نظریات وغیرہ یعنی انوینشنز اینڈ تھیوریٹکل سٹڈیز میں یورپیئن ممالک کا نمایاں کردار نظر آتا ہے، لیکن جن جن چیزوں کے پیچھے نئی ایجادات کی بجائے صرف آئیڈیاز کا عمل دخل ہے، وہ تقریبا" سب کی سب امریکہ سے متعلق ہیں۔ چاہے فاسٹ فوڈ ہو، چاہے سوفٹ ڈرنکس ہوں، چاہے انٹرنیٹ ہو، ڈسپوزیبل ریزر ہو،سپر سٹورز ہوں، بچوں کے ڈائپرز ہوں یا کچھ بھی اور۔
اس کی وجہ کیا ہے؟
اس کی وجہ ان کا نظام ہے۔ جو انسانی دماغ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ جہاں حسب نسب اور مال و دولت کی بنیاد پہ تو لوگوں کو عزت و احترام حاصل ہے ہی، لیکن عقل و دانش و دماغ کی بنیاد پہ بھی ہے۔ تمام بڑی بڑی امریکی کمپنیوں کی تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو اندازہ یہ ہوتا ہے کہ ایک عام، متوسط یا غریب بندے کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا اور اس نے اس کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھانی تو ان کے وسیع الذہن معاشرے اور نظام نے نہ صرف اس کو قبول کیا بلکہ کی اس کی اثرپذیری کے حساب سے اس کی مارکیٹنگ کو عروج تک بھی پہنچایا۔ ذرا کھنگالئے تاریخ
کے ایف سی کی
پزا ہٹ کی
سب وے کی
جیلیٹ کی
وال مارٹ کی
ہنری فورڈ کی
مائکروسوفٹ کی
ایپل کی
ایمیزون کی
ای بے کی
گوگل کی
یاہو کی
فیس بک کی
یوٹیوب کی
اور انہی جیسی نجانے کتنی ہی اور کمپنیاں اور ادارے جو کہ صرف ایک آئیڈیا کی بنیاد پہ وجود میں آئے۔ ان میں کوئی ایجاد نہیں تھی۔ کوئی فزکس، کیمسٹری یا بائیولوجی کا خاص عمل دخل نہیں تھا۔ یہ صرف آئیڈیاز تھے۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ سب اس وقت دنیا پہ صرف اور صرف اس وجہ سے چھائے ہوئے ہیں کہ یہ سب آئیڈیاز امریکہ میں شروع ہوئے۔
لہٰذا خوش قسمت امریکہ نہیں، خوش قسمت یہ سب ہیں۔
:)
جواب دیںحذف کریںنیٹ جیو پیپل پر ایٹ اسٹریٹ دیکھا ہے؟
دیکھنے والا پروگرام ہے کہ کس طرح صرف فوڈ ٹرکس کے مالکان نئے ذائقے ایجاد کرتے ہیں یہ عام سے لوگ ہیں پر جس طرح وہ روزمرہ کے کھانوں کو نئے پن کے ساتھ متعارف کرواتے ہیں وہ ہمارے یہاں کے بڑے بڑے شیفز بھی کرنے سے قاصر ہیں
ایٹ سٹریٹ دیکھا تو نہیں، لیکن اور بہت کچھ دیکھا ہے۔
جواب دیںحذف کریںتبھی تو یہ خیالات ذہن میں آئے ہیں۔
پیشگی معذرت کی درخواست ہے اگر گستاخی سرزد ہو جائے ۔ آپ کی تحریر نے حقیقت کا صرف ایک رُخ پیش کیا ہے اور اس میں بھی ایک آدھ فقرہ آپ کے ذہن میں نہیں آیا ۔ مثال کے طور پر ” یہ القاعدہ کا ایجنٹ ہے“ اور ساتھ ہی امریکی حکومت کی پیشکش آ جاتی القاعدہ کا قلع قلمع کرنے کیلئے
جواب دیںحذف کریںدوسرا رُخ یہ ہے کہ میرے پیارے ہموطن پہلے انگریز کے ذہنی غلام تھے اور اب امریکہ کے ذہنی غلام ہیں ۔ کے ایف سی کے شیدائی لاہور کے دیگی چرغے کو کیا جانیں ۔ میں نے 2009ء میں لاہوری دیگی چرغے کی دکان پر لکھا دیکھا ”لاہور بروسٹ“۔ میں اُن سے کہا یہ انگریزی ترجمہ درست نہین ۔ جواب ملا ”کیا کریں جی ۔ اُردو مین نام ہو تو آجکل کے صاب لوگ دکان میں نہیں گھستے“۔
اور تیسرا رُخ ہے ۔ شاید آپ نے میری مندرجہ ذیل ربط پر موجود تحریر نہیں پڑھی ۔ اسے ضرور پڑھیئے ۔ یہ دیگ میں سے نمونہ کے چند دانے چاول ہیں
http://www.theajmals.com/blog/2013/02/01/
میکڈونلڈ کا برگر جس کے اب اُنہوں نے کئی نام رکھ دیئے ہیں یعنی میک وغیرہ ۔ یہ کسی امریکی کا تخیل نہیں تھا ۔ روسی ترکستان کے لوگ جب سفر پر نکلتے تو دوروٹیوں کے درمیان ایک بڑا سا گول چپٹا کباب رکھ لیتے جسے وہ راستہ میں کھاتے تھے ۔ یعنی سفری کھانا تھا ۔ یہ کباب گائے کے گوشت کا ہوتا تھا ۔ جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ایک شخص نے اسے تیار کرنا شروع کیا تو اس کا نام ھیمبرگر پڑ گیا مگر بنتا گائے کے گوشت سے ہی تھا ۔ اس کی نقل یورپ میں پھیلی اور بعد میں امریکہ جا پہنچی ۔ آج اسے امریکہ کی ایجاد کہا جاتا ہے ۔
جواب دیںحذف کریںمیرے ہموطن اپنے ملک کے اچھے اچھے کھانے چھوڑ کر مہنگے داموں برگر میکڈونلڈ سے لے کر کھاتے ہیں کہ شاید اسی طرح امریکی بن جائیں
ایک تن بیتی بھی سُنیئے ۔ میں 1976ء سے 1983ء تک طرابلس لبیا میں تھا ۔ وہاں ایک پاکستانی جوڑے سے میل ملاپ ہو گیا ۔ خاوند مکینیکل انجنیئر اور بیوی ڈاکٹر ۔ وہ ہمارے ہاں آئے ۔ اتفاق سے چند منٹ قبل ہمارے دفتر کا ایک لیبی اپنی زمین کی مکئی کے پھُلے دے کر گیا تھا ۔ میں نے مہامانوں کے سامنے رکھتے ہوئے کہا ”فی الحال آپ پھُلے کھایئے ۔ اتنی دیر میں بیگم آپ کیلئے چائے وغیرہ تیار کرتی ہیں“۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بڑی نفرت سے کہا ” ہم پھُلے نہیں کھاتے“۔ میں خاموش ہوگیا کہ پسند اپنی اپنی ۔
کچھ عرصہ بعد ہم اُن کے ہاں گئے تو اُن کے بچے پھُلے کھا رہے تھے ۔ میں نے کہا ”آپ نے فرمایا تھا کہ آپ لوگ پھُلے نہیں کھاتے “۔ بولیں ”یہ پوپ کارن ہیں“۔
اب فرمایئے کیا کہتے ہیں علمائے دین و دنیا ؟
بہت شکریہ افتخار اجمل بھائی! اس تحریر پہ نظرِ التفات ڈالنے پہ۔
جواب دیںحذف کریںبھائی آپ کی بات سے غیرمتفق ہونے کی جرآت تو نہیں کی جا سکتی۔
خیر اپنی چہرہ بچائی (یعنی فیس سیونگ) کی خاطر یہ عذر تراش سکتا ہوں کہ اپنا اپنا نکتۂ نظر رکھنا ممکنات میں سے ہے۔
مزید گزارش یہ ہے کہ میں خود بھی لاہوری چرغے کا شیدائی ہوں، لیکن کے ایف سی یا پزا ہٹ کی ایک دنیا دیوانی ہے تو اس کی بھی ٹھوس وجوہات ہیں۔ لاہوری یا غیر لاہوری چرغے کے بنائے جانے کی "سرِعام" نما مکمل تفصیلات سامنے آ جائیں تو لاہور بروسٹ تو درکنار، لوگ اس کے سامنے سے بھی گزرنا چھوڑ دیں۔
کیا کوئی ایسا دن گزرتا ہے، جب مردہ جانوروں کے گوشت بیچنے اور نجانے کیا کیا بدبختیوں کی داستان ہم سب کے سامنے نہ آتی ہو۔
خیر یہ لمبی بحث ہے۔ آپ کی تحریر ابھی پڑھی ہے۔
ویسے یہ میرے ہی موقف کی عکاس ہے کسی حد تک۔
بہت شکریہ آپ کا
میں نے یہی عرض کیا نا کہ امریکہ نے خود کچھ خاص ایجاد نہیں کیا، لیکن آئیڈیا امریکیوں کا ہی فروخت ہوا۔ جرمن ہیمبرگر ہو یا اٹالین پزا یا کسی اور ملک کی کوک۔ جب امریکیوں نے اس آئیڈیا کو اپنایا تو ہی یہ بامِ عروج پہ پہنچا۔
جواب دیںحذف کریںاور چھوڑیں، اپنے محسن حامد صاحب (دی ریلکٹینٹ فنڈامنٹلسٹ والے) اگر یہاں رہ کر وہی ناول لکھتے تو کہاں جگہ پاتے اور کتنا بِکتے، یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔
محترم ۔ پیشگی معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ”حمام میں سب ننگے“ تو آپ نے پڑھا یا سُنا ہو گا ۔ کے ایف سی ۔ پیزا ہٹ اور میکڈونلڈ کے باورچی خانوں یا جہاں مال ذبح ہوتا اور تیار ہوتا ہے جا کر دیکھ لیجئے گا ۔
جواب دیںحذف کریںسرِ دست مین اپنی آنکھوں سے دیکھا لکھتا ہوں ۔ میں سرکارِ پاکستان کے نمائیند کے طور جرمنی گیا ہوا تھا ۔ وہاں کی ایک بہت بڑی کمنی کے ساتھ ہمارا کاروبار تھا ۔ ایک دن کمنی کے چیف نے ہمیں ایک بڑے اُونچے معیار کے ہوٹل میں کھانے کی دعوت دی ۔ حرام حلال کا تو بہت خیال کیا گیا لیکن بری عادات کا کوئی کیا کرے ۔ میرے سامنے کمپنی ایک ڈائریکٹر اُس کے ساتھ پاکستانی سفارتخانہ کے ٹیکنیکل اتاشی اور میرے ساتھ جرمن جنرل منیجر پلیننگ بیٹھے تھے ۔ ایک دوسری میز پر کوئی ہائی کلاس جرمن بیٹھے تھے ۔ جب بیرے نے اُن کیلئے پلیٹین لگائیں تو اُن میں سے ایک نے ایک پلیٹ کی طرف اشارہ کیا ۔ بیرا پلیٹ اُٹھا کر لے گیا اور دور جا کر جہاں وہ اُنہیں نطر نہیں آ رہا تھا مگر مجھے اور جرمن جنرل منیجر کو نظر آ رہا تھا ۔ اُس نے پلیٹ پر تھوکا اور اپنے کوٹ کی آستین سے صاف کر کے واپس لوٹا ۔ جرمن جنرل منیجر نے میری طرف دیکھا اور مین نے اُس کی طرف ۔ اُس کا منہ کھلا تھا اور آنکھیں پھٹی پر رہی تھیں ۔ شاید میرا بھی یہی حال تھا ۔ چند منٹ بعد جنرل منیجر اُٹھ کر سیدھا شیف کے پاس گیا اور اُس کے ساتھ لمبی گفتگو کے بعد واپس آیا ۔ میرے کان میں کہنے لگا ”میں نے اُس بیرے کا ذکر نہیں کیا ۔ میں نے صرف یہ کہا کہ یہ ہمارے مہمان پاکستان سے آئے ہین بہت ہی وہمی لوگ ہین ۔ مہربانی کر کے جو پلیٹین ہمیں دینا ہیں ۔ اُنہیں پانی میں اُبال کے دیں ورنہ یہ لوگ نفساتی طور پر بیمار ہو جائیں گے اور ہمارے لئے مشکل ہو جائے گی اور اپنے سامنے پانی کی دیگچی چولہے پر رکھوا کر پلیٹیں اُس میں ڈلوا کر آ گیا ہون ۔ تھوڑی دیر بعد جا کے دیکھوں گا کہ پانی اُبلا یا نہیں ۔ کوئی کپڑا ساتھ نہ لگایا جائے ۔ ان کا کیا اعتبار“۔