تاریخ کا فقط ایک مصرف ہے اور وہ یہ کہ اس سے سبق حاصل کیا جائے، عبرت پکڑی جائے، اور اس کی روشنی میں اپنے مستقبل کی راہوں کا تعین کیا جائے۔ بدقسمتی سے من حیث القوم ہم نے تاریخ کا مصرف یہ نکالا ہے کہ اس کے خوشگوار حصوں کا بھجن گایا جائے اور اس کے ناخوشگوار حصوں کا انکار کیا جائے، اور اگر خوشگوار
حصوں کی کمی محسوس کریں تو حسبِ توفیق اس میں مبالغہ آرائی کا تڑکا لگانے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔
لیکن تاریخ اور تواریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ چلن صرف ہمارا یا عہدِ حاضر کا ہی نہیں ہے، بلکہ ہمیشہ سے تاریخ میں من پسند و من گھڑت فسانہ نویسی شامل کی جاتی رہی ہے۔
بقول ونسٹن چرچل ’’مورخ وہ کام کر گزرتے ہیں، جو خدا بھی نہیں کر سکتا۔ یعنی وہ ماضی یا تاریخ کو ہی بدل دیتے ہیں‘‘۔ دانستہ مبالغہ آرائی کے علاوہ تاریخ میں مختلف وجوہات کی بنا پر اغلاط اور جھوٹ بھی شامل ہوتے رہے ہیں۔
تاریخ میں مبالغہ آرائی اور اغلاط کے متعلق شہرہ آفاق مورخ اور ماہرِ عمرانیات علامہ ابنِ خلدون کیا کہتے ہیں۔ ہم ان کی تاریخ کے مقدمہ سے کچھ اقتباسات کی مدد لیتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تاریخ بیان کرنے میں غلطی یا مبالغہ آرائی کیوں اور کیسے ہوتی ہے۔
مقدمہ میں ایک جگہ پر ابنِ خلدون لکھتے ہیں’’تاریخ میں غلطیوں کے کئی اسباب ہیں۔ پہلا سبب اختلافِ آرا اور مذہب ہے۔ دوسرا سبب نقل کرنے والوں پر بھروسہ ہے کہ اس زعم میں وہ ثقہ ہیں اور غلطی کرنا ان کے شایانِ شان نہیں۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ بہت سے راوی اپنی مشاہدہ کی ہوئی یا سنی ہوئی خبروں کے اغراض و مقاصد سے ناآشنا رہتے ہیں اور اپنے گمان پر روایت کر دیتے ہیں۔ چوتھا سبب وہمِ صداقت ہے۔ یعنی کہ لوگوں نے کسی سنی بات کو کم علمی یا نادانستگی میں سچ جان لیا اور اسی کو روایت کر دیا۔ پانچواں سبب معزز اور بڑے لوگوں کی مدح ثنا کر کے ان کو خوش کرنا اور ان کا قرب حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ چھٹا سبب معاشرے کے طبعی احوال سے ناواقفیت ہے‘‘۔ (حوالہ: ترجمہ مقدمہ ابنِ خلدون از راغب رحمانی، حصہ اول، صفحہ نمبر 146)۔
ایک اور مقام پر ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ "لوگ عموماََ کسی چیز کی تعداد بڑھا چڑھا کر بتایا کرتے ہیں: ہم اپنے زمانے کے اکثر عوام کو دیکھتے ہیں کہ جب وہ اپنے زمانے یا قریبی زمانہ کی حکومت کے لشکروں کی تعداد بیان کرتے ہیں یا مسلمانوں کی یا عیسائیوں کی فوجوں کی تعداد کا ذکر کرتے ہیں یا ٹیکس و خراج کے مال گنواتے ہیں یا مالداروں کے خرچے اور دولتمندوں کے سامان بتانے لگتے ہیں تو تعداد میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور مروجہ عادتوں کی حدوں سے پھلانگ جاتے ہیں اور انوکھی بات پیش کرنے میں اوہام و وسوسوں کے مرید بن جاتے ہیں"۔ (حوالہ: ترجمہ مقدمہ ابنِ خلدون از راغب رحمانی، حصہ اول، صفحہ نمبر 119)۔
اب ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ میں بیان کردہ واقعات کی تصدیق یا جانچ کا کیا پیمانہ ہے؟
یقیناََ تاریخی واقعات کی تصدیق یا اسنا د کو ثابت کرنا (یا نہ ثابت کرنا) مشکل بلکہ تقریباََ ناممکن کام ہے۔ ایسے میں چند ایک ہی پیمانے رہ جاتے ہیں جن سے آپ کسی حد تک اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ابنِ خلدون نے شہرہ آفاق تصنیف مقدمۂ تاریخِ ابنِ خلدون میں اس کے لئے ایک پیمانہ عقل و تدبر بیان فرمایا ہے۔ اس کے لئے انہوں نے بہت سی مثالیں بھی دی ہیں۔
ایک جگہ عوج بن عناق کا ذکر کیا ہے کہ اس کے بارے میں مورخین لکھتے تھے کہ وہ اتنا طویل القامت تھا کہ سمندر میں ہاتھ ڈال کے مچھلی پکڑ لیتا تھا اور ہاتھ سورج کی طرف بڑھا کر مچھلی کو بھون لیتا تھا۔ اس پہ ابنِ خلدون نے لکھا ہے (مفہوم یہ ہے)کہ مورخین عقل کو ہاتھ ماریں، ایسا بھلے کیسے ممکن ہے۔(حوالہ: ترجمہ مقدمہ ابن خلدون از راغب رحمانی، فصل نمبر 18، صفحہ نمبر 300)۔
ایک اور جگہ ابنِ خلدون لکھتے ہیں "ایک حکایت مسعودی بیان کرتے ہیں جس کا تعلق مینا کے مجسمے سے ہے جو رومہ میں ہے۔ سال کے ایک معین دن بہت سی مینائیں چونچوں میں زیتون لے کے جمع ہوتی ہیں جن سے رومہ کے باشندے روغنِ زیتون نکال لیتے ہیں۔ غور کیجئے زیتون حاصل کرنے کا یہ طریقہ قدرتی طریقے سے کس قدر دور اور بعید از عقل ہے"۔ (حوالہ: ترجمہ مقدمہ ابن خلدون از راغب رحمانی، حصہ اول، صفحہ نمبر 147)۔
مقدمہ ابنِ خلدون میں اس موضوع پر سیرحاصل مواد مطالعہ کے لئے میسر ہے، جس میں سے بوجۂ اختصار صرف چند ایک کا بیان اس بلاگ میں شامل کیا گیا ہے۔ حاصلِ کلام یا اہم ترین بات یہی ہے کہ ماضیٔ بعید یا ماضی قریب کے واقعات سے متعلق تاریخ پڑھتے ہوئے عقل و شعور کا پیمانہ ضرور پیشِ نظر رکھا جائے، نہ کہ ہر بات کو من و عن تسلیم کر کے خود بھی گمراہ ہوا جائے اور دوسروں تک بھی اس کا ابلاغ کر دیا جائے۔
وما علینا الالبلاغ
تاریخ میں مبالغہ آرائی اور اغلاط کے متعلق شہرہ آفاق مورخ اور ماہرِ عمرانیات علامہ ابنِ خلدون کیا کہتے ہیں۔ ہم ان کی تاریخ کے مقدمہ سے کچھ اقتباسات کی مدد لیتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تاریخ بیان کرنے میں غلطی یا مبالغہ آرائی کیوں اور کیسے ہوتی ہے۔
مقدمہ میں ایک جگہ پر ابنِ خلدون لکھتے ہیں’’تاریخ میں غلطیوں کے کئی اسباب ہیں۔ پہلا سبب اختلافِ آرا اور مذہب ہے۔ دوسرا سبب نقل کرنے والوں پر بھروسہ ہے کہ اس زعم میں وہ ثقہ ہیں اور غلطی کرنا ان کے شایانِ شان نہیں۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ بہت سے راوی اپنی مشاہدہ کی ہوئی یا سنی ہوئی خبروں کے اغراض و مقاصد سے ناآشنا رہتے ہیں اور اپنے گمان پر روایت کر دیتے ہیں۔ چوتھا سبب وہمِ صداقت ہے۔ یعنی کہ لوگوں نے کسی سنی بات کو کم علمی یا نادانستگی میں سچ جان لیا اور اسی کو روایت کر دیا۔ پانچواں سبب معزز اور بڑے لوگوں کی مدح ثنا کر کے ان کو خوش کرنا اور ان کا قرب حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ چھٹا سبب معاشرے کے طبعی احوال سے ناواقفیت ہے‘‘۔ (حوالہ: ترجمہ مقدمہ ابنِ خلدون از راغب رحمانی، حصہ اول، صفحہ نمبر 146)۔
ایک اور مقام پر ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ "لوگ عموماََ کسی چیز کی تعداد بڑھا چڑھا کر بتایا کرتے ہیں: ہم اپنے زمانے کے اکثر عوام کو دیکھتے ہیں کہ جب وہ اپنے زمانے یا قریبی زمانہ کی حکومت کے لشکروں کی تعداد بیان کرتے ہیں یا مسلمانوں کی یا عیسائیوں کی فوجوں کی تعداد کا ذکر کرتے ہیں یا ٹیکس و خراج کے مال گنواتے ہیں یا مالداروں کے خرچے اور دولتمندوں کے سامان بتانے لگتے ہیں تو تعداد میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور مروجہ عادتوں کی حدوں سے پھلانگ جاتے ہیں اور انوکھی بات پیش کرنے میں اوہام و وسوسوں کے مرید بن جاتے ہیں"۔ (حوالہ: ترجمہ مقدمہ ابنِ خلدون از راغب رحمانی، حصہ اول، صفحہ نمبر 119)۔
اب ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ میں بیان کردہ واقعات کی تصدیق یا جانچ کا کیا پیمانہ ہے؟
یقیناََ تاریخی واقعات کی تصدیق یا اسنا د کو ثابت کرنا (یا نہ ثابت کرنا) مشکل بلکہ تقریباََ ناممکن کام ہے۔ ایسے میں چند ایک ہی پیمانے رہ جاتے ہیں جن سے آپ کسی حد تک اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ابنِ خلدون نے شہرہ آفاق تصنیف مقدمۂ تاریخِ ابنِ خلدون میں اس کے لئے ایک پیمانہ عقل و تدبر بیان فرمایا ہے۔ اس کے لئے انہوں نے بہت سی مثالیں بھی دی ہیں۔
ایک جگہ عوج بن عناق کا ذکر کیا ہے کہ اس کے بارے میں مورخین لکھتے تھے کہ وہ اتنا طویل القامت تھا کہ سمندر میں ہاتھ ڈال کے مچھلی پکڑ لیتا تھا اور ہاتھ سورج کی طرف بڑھا کر مچھلی کو بھون لیتا تھا۔ اس پہ ابنِ خلدون نے لکھا ہے (مفہوم یہ ہے)کہ مورخین عقل کو ہاتھ ماریں، ایسا بھلے کیسے ممکن ہے۔(حوالہ: ترجمہ مقدمہ ابن خلدون از راغب رحمانی، فصل نمبر 18، صفحہ نمبر 300)۔
ایک اور جگہ ابنِ خلدون لکھتے ہیں "ایک حکایت مسعودی بیان کرتے ہیں جس کا تعلق مینا کے مجسمے سے ہے جو رومہ میں ہے۔ سال کے ایک معین دن بہت سی مینائیں چونچوں میں زیتون لے کے جمع ہوتی ہیں جن سے رومہ کے باشندے روغنِ زیتون نکال لیتے ہیں۔ غور کیجئے زیتون حاصل کرنے کا یہ طریقہ قدرتی طریقے سے کس قدر دور اور بعید از عقل ہے"۔ (حوالہ: ترجمہ مقدمہ ابن خلدون از راغب رحمانی، حصہ اول، صفحہ نمبر 147)۔
مقدمہ ابنِ خلدون میں اس موضوع پر سیرحاصل مواد مطالعہ کے لئے میسر ہے، جس میں سے بوجۂ اختصار صرف چند ایک کا بیان اس بلاگ میں شامل کیا گیا ہے۔ حاصلِ کلام یا اہم ترین بات یہی ہے کہ ماضیٔ بعید یا ماضی قریب کے واقعات سے متعلق تاریخ پڑھتے ہوئے عقل و شعور کا پیمانہ ضرور پیشِ نظر رکھا جائے، نہ کہ ہر بات کو من و عن تسلیم کر کے خود بھی گمراہ ہوا جائے اور دوسروں تک بھی اس کا ابلاغ کر دیا جائے۔
وما علینا الالبلاغ
اسلامُ علیکم!
جواب دیںحذف کریںتاریخ سے زیادہ اسلام کو سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے قرآن فہمی بہت ضروری مگر وہاں بھی ھر مسلک نے اپنے مسلک کے تحت ترجمے کئے ھوئے ہیں ۔۔ مسلم اتحاد کے لئے پڑھے لکھے لوگوں کو غور و فکر کرنا ھو گا اور حقیقی تعلیم و تربیت بہت ضروری ہے ۔۔ اس ضمن میں ھم فیس بک پر کوشش کر رہے ہیں۔ آئیں ہمارا ساتھ دیں اپنے لئے اور قوم کے لیے
ایک ھوں مسلم (Qurani Hikmat Taly)
Zeryab Ali Yehya
وعلیکم السلام
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ جناب۔ بہت اچھی باتیں کہیں آپ نے۔
اس فیس بک پیج کا حوالہ یا ربط بھی فراہم کر دیں تو مزید نوازش یو گی۔
bilkul durst baat na e tareekh k bary hm koe yaqeene rae qaem kr sakty hain aur na e tarrekh ka tokra sir per lay k chorahy chorahy shoor mchana cahea ye to seekhny ki cheez hai seekha jae aur agay bhara jae .
جواب دیںحذف کریںبالکل درست فرمایا جناب۔
جواب دیںحذف کریںاظہارِ خیال کا شکریہ