ہفتہ، 3 مئی، 2014

سونامی صاحب کا ذہنی دیوالیہ پن

ویسے تو جنابِ عمران خان صاحب گزشتہ کچھ ماہ سے کافی ٹھیک جا رہے تھے۔ خصوصا" ان کی فاٹا آپریشن کی بجائے مذاکرات سے مسئلہ حل کرنے کے موقف پہ سختی سے قائم رہنے اور نتیجتا" ملک میں گزشتہ چند ماہ میں نسبتا" پرامن حالات ہونا کافی بہتر اپروچ لگ رہا تھا۔ ان کے لئے میرے پسندیدگی کے گراف میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔
لیکن گزرے چند دن میں جناب قائدِ انقلاب نے کچھ ایسے کارنامے کر ڈالے ہیں کہ مجھے تو خطرہ محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید جناب کے سر پہ چوٹ لگی ہے
یا آجکل شدت سے بخار  رہا ہے جس کا اثر سر تک جا پہنچا ہے۔
نمونہ جات ملاحظہ ہوں۔

ایک سال بعد جنگ اور جیو کا بائیکاٹ۔ اور اس میں بھی مزید مزے کی بات اس کی وجہ ہے۔ وجہ حامد میر و عامر میر کی حالیہ گوہرافشانی نہیں، بلکہ گزشتہ سال کے الیکشن کے دوران جنگ اور جیو پہ انتخابی دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے اس کے بائیکاٹ کا اعلانِ عالیشان فرما ڈالا ہے۔ اس پہ مجھے بجا طور پہ وہ لطیفہ نما واقعہ یاد آ رہا ہے کہ "کیوں بھائی ہنس کیوں رہے ہو؟ وہ یار تم نے سال پہلے جو لطیفہ سنایا تھا، وہ مجھے سمجھ آ گیا ہے"۔

جیو پہ مضحکہ خیز ترین الزام یہ کہ اس نے ادھورے نتائج کی بنیاد پہ ہی نوازشریف سے تقریر کروا دی۔ بندہ کچھ عقل ہی کو ہاتھ مار لیتا ہے کہ کیا وہاں بندے بھی جنگ اور جیو نے اکٹھے کر ڈالے تھے؟ کیا نواز شریف کو تقریر کا آئیڈیا اور سکرپٹ جیو نے تحریر کر کے دیا تھا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا صرف جیو نے ہی وہ تقریر نشر کی تھی؟ اس آخری سوال کے جواب میں سونامی صاحب کا فرمانا تھا کہ پہلے جیو نے ایسا کیا تو اس کی دیکھا دیکھی باقی چینلز نے بھی کیا۔ اس سادگی پہ تو مر جانے کو بھی نہ جی چاہے بھائی۔

اگلا کارنامہ جو ہونے جا رہا ہے، وہ سب سے بڑھ کر شرمناک اور خطرناک ہے۔ وہ ہے جناب رئیس المنافقین اپنے تئیں "شیخ الاسلام" اور شیخ رشید نامی سیاسی لونڈے کے ساتھ مل کے احتجاجی پروگرام چلانے کا۔ خان صاحب! کاش آپ اکیلے ہی احتجاج کروا لیتے۔ آپ کو سٹریٹ پاور یا بندوں کی کیا کمی ہے؟ اور ایک سال بعد الیکشن کی دھاندلی پہ احتجاج کا خیال کچھ زیادہ جلدی ہی نہیں آ گیا۔

اس آخری والی بات سے مجھے اب اس بات میں کم ہی شک رہ گیا ہے کہ ایک بار پھر جنرل پاشا صاحب والا دور واپس آتا دکھائی دے رہا ہے۔ ویسے تو ہمارے زیادہ تر سیاستدانوں کی سیاست کا پودا خاکی والوں کی کھاد سے پروان چڑھتا ہے، لیکن جس جس میں بلوغت کے آثار نمودار ہونے لگتے ہیں۔ وہ پھر ان کے قابو سے نکل جاتا ہے۔ خان صاحب بھی قابو سے نکلتے ہی نظر  رہے تھے۔ لیکن اب اچانک یو ٹرن لیتے ہوئے پھر سے خاکی کھاد کے کیوں متمنی ہوئے جا رہے ہیں۔
اور اگر واقعی ایسا ہے تو یہ قابلِ مذمت اور قابلِ افسوس ہے۔ اس ملک کے بے شمار لوگوں خصوصا" پڑھے لکھے اور نوجوان طبقے نے بڑی تمناؤں اور امیدوں کے ساتھ آپ کا ساتھ دیا ہے۔ کیوں ان کو ایک بار پھر مایوس کرنے جا رہے ہیں۔

4 تبصرے:

  1. ہی ہی ہی استاد جی خاکسار نے گذشتہ برش اسی قسم کے خیالات کا اظہار فرمایا مگر۔۔ کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور۔

    بات یہ ہے کہ خاں صاحب سیاست میں بغیر کسی پراپر ٹریننگ کے ہی اتر آئے۔۔ اور بڈھے طوطوں کا کچھ سیکھنا یوں بھی ناممکن ہوا کرتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں جیسا دستور ہے، ہر اناڑی راتوں رات نجات دہندہ بن جاتا ہے، سو خاں صاحب کو بھی کئی پجاری مل ہی گئے۔۔۔ میری نظر میں خاں صاحب کی سیاست اور ہر دو چار سال بعد کسی عبقری کا پانی/کششِ ثقل/ شمسی توانائی/الیکٹرانز سے گاڑی چلانے کا دعویٰ ایک ہی فلم کے دو پارٹ ہیں۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمناممئی 06, 2014

    :D

    خان صاحب کا انگریزی "مضبوط" رکھنے کا "کامیاب" نسخہ

    http://www.dailymotion.com/video/x1o7zl4_my-english-got-weak-after-divorce-imran-khan-pti_news?start=0

    جواب دیںحذف کریں
  3. محترم! ہر انسان دوسرے سے اختلاف کرسکتا ہے اور یہ اس کا حق ہے لیکن اس کے لیے ناشائستہ زبان استعمال کرنا اور کسی مسلمان کے نام کو کافر سے تشبیہ دینا سراسر زیادتی اور اپنی ذہنی اپروچ کی سطح کی نشانی ظاہرکرنا ہے۔
    طاہرالقادری سے آپ کو لاکھ اختلاف ہو (مجھے بھی ہے)۔ لیکن ان کے نام کا آخری حصہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ کی نسبت ظاہر کرتا ہے، اسے عیسائی راہنما (ہادری) سے تشبیہ دینا انتہائی غلط سوچ ہے۔ آپ کو ان کے نظریات سے اختلاف ہے یا ان کے نام سے؟

    جواب دیںحذف کریں
  4. اچھی بات فرمائی باروی بھائی! میں نے پوسٹ میں سے متعلقہ الفاظ ہٹا دیئے ہیں۔ شکریہ اور جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر