بدھ، 27 جولائی، 2011

ایں ہیچ است

یہ قصہ ہے اس شخص کا جس نے ہزاروں سال سے قائم ایک نظام سے ٹکر لی اور اس کو تہہ و بالا کر دیا۔
یہ قصہ ہے اس شخص کا جس نے اپنے وقت کی ایک بہت بڑی طاقت سے ٹکر لی تھی۔
اور یہ قصہ زیادہ پرانا بھی نہیں ہے، صرف اکتیس سال پرانی بات ہے۔

ایران کے شہر قم میں دو کمروں کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہنے والے اس شخص کو دنیا امام خمینی کے نام سے جانتی ہے۔


امام خمینی نے انیس سو ساٹھ کی دہائی میں شاہ ایران کی حکومت کے خلاف آواز بلند کی۔ اس وقت ایران پہ رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی جو کہ اپنے آپ کو شہنشاہ کہلواتا تھا اور فخریہ کہتا تھا کہ ہمارا خاندان سائرسِ اعظم کے دور سے ایران کے تخت و تاج کا مالک ہے۔ رضا شاہ پہلوی کی حکومت پہ گرفت کافی مضبوط تھی، لیکن شاہ کی حکومت کی پالیسیاں انتہائی مغرب نواز اور غیراسلامی تھیں۔ امریکی کارندوں کو ایران میں کاروائیاں کرنے کی کھلی چھٹی تھی اور ان کو ایرانی قانون سے مستشنٰی قرار دیا گیا تھا۔

ایسے وقت میں امام خمینی کی آواز بے شمار لوگوں کے دل کی آواز ٹھہری اور گلی محلوں میں امام خمینی کے الفاظ دہرائے جانے لگے۔ جب شاہ ایران کو امام خمینی سے خطرہ محسوس ہوا تو پہلے ان کو جیل میں قید کر دیا گیا اور "راہ راست" پہ لانے کے لئے سمجھانے کی کوشش کی گئی، لیکن جب خمینی نے اپنے خیالات بدلنے اور اپنی آواز دبانے سے انکار کر دیا تو ان کو جلاوطن کر دیا گیا اور وہ مختلف ملکوں میں کچھ کچھ عرصہ گزارتے ہوئے آخرکار فرانس میں قیام پذیر ہوئے۔

اگرچہ امام خمینی کو ایران سے بے دخل کر دیا گیا تھا، لیکن امام خمینی نے ایران کے لوگوں میں انقلاب کا جو بیج بو دیا تھا۔ اس کو کوئی جلاوطن نہیں کر سکا۔ شاہ ایران کے خلاف نفرت اور بغاوت بڑھتی گئی۔ اور 1979 میں ایک ایسا وقت آیا کہ شاہ ایران کسی نجی دورے کے بہانے ملک چھوڑ کے چلا گیا۔ امام خمینی نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ اس وقت تک ایران نہیں لوٹیں گے جب تک ایران میں شاہ ایران موجود ہے۔ لیکن شاہ ایران کے فرار کے بعد یکم فروری 1979 کو امام خمینی واپس ایران پہنچے۔ تہران کے ہوائی اڈے پہ انسانوں کا ایک عظیم سیلاب ان کے استقبال کے لئے اکٹھا ہو گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق ساٹھ لاکھ کے قریب انسانوں کا مجمع امام خمینی کو خوش آمدید کہنے کے لئے وہاں موجود تھا۔ اس موقعے پہ ساری دنیا کا میڈیا بھی وہاں موجود تھا۔

جب امام خمینی جہاز سے اترے تو رپورٹرز نے ان سے پوچھا کہ وہ اس موقعے پہ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ سب کا خیال تھا کہ وہ کسی فاتح کی طرح تقریر کریں گے کہ ہم نے یا میں نے یہ کر دیا اور وہ کر دیا۔ لیکن امام خمینی نے شاید دنیا کی تاریخ کی مختصر ترین تقریر کی جو کہ صرف تین الفاظ پہ مشتمل تھی اور وہ الفاظ تھے "ایں ہیچ است" (یعنی "یہ تو کچھ بھی نہیں")۔ جب ان سے تفصیل پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ
اللہ کے کاموں کے سامنے یہ سب کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے کہیں بڑے کام کرنے پہ قادر ہے۔

(اسی سہ لفظی تقریر سے خمینی نے اس انقلاب کے مستقبل کا لائحہ عمل بھی واضح کر دیا کہ وہ ایران پہ حکومت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، بلکہ ان کی حیثییت صرف انقلاب کے فکری اور روحانی لیڈر کی رہے گی، اور اگلے دس برس یعنی اپنی وفات تک ان کی یہی حیثیت برقرار رہی)۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر