ایک وقت تھا کہ میڈیا کا دور دورہ تھا اور کسی بھی بات سے باخبر رہنے یا رائے بنانے کے لئے معتبر ترین ذریعہ میڈیا ہی تھا۔
گزشتہ کچھ عرصے میں بہت سے ایسے واقعات دیکھے جا سکتے ہیں جن سے میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ میڈیا سے بڑھ کے بھی نئے آسمان وا اور نئی جہات آشکار ہو چکی ہیں۔
ایک مثال تو اسامہ آپریشن کی ہے۔ جس وقت یہ آپریشن ہو رہا تھا تو ایبٹ آباد میں اس گھر سے قریب ہی کوئی نیٹ کی دنیا کا باسی رات کے اس پہر بھی نیٹ پہ بیٹھا ہوا تھا اور آپریشن کے دوران ہونے والی کاروائی کو جس حد تک وہ سمجھ سکا، وہ سب اس نے ٹوئٹر پہ لائیو اپ ڈیٹ کی۔ یہ کسی بھی نیوز ایجنسی سے کہیں پہلے نشر ہونے والی خبر کہلا سکتی ہے۔
اسی طرح حالیہ واقعہ عامر لیاقت والا ہے کہ جس کا تذکرہ میڈیا میں ہے ہی نہیں۔ لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے ہر جگہ یہ بات دھمائی جا چکی ہے۔
فیس بک، ٹوئٹر، یو ٹیوب، ون اردو اور نجانے ایسے کتنے ہی فورمز پہ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہے۔
یہ اور ان جیسے دیگر بے شمار مظاہر دیکھ کے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب ہم سوشل میڈیا کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا کی اس شکل کا نفوذ مزید فزوں تر ہوتا جائے گا۔ کیونکہ کسی بھی وقوعے کی صورت میں سوشل میڈیا زیادہ تیزی سے، زیادہ نیچرل اور نتیجتا" زیادہ مؤثر کوریج کر سکتا ہے۔
سوشل میڈیا کو دوسرے میڈیا سے اس لحاظ سے بھی سبقت یا برتری حاصل ہو جاتی ہے کہ باقی میڈیا میں ان پُٹ والے عناصر تقریبا" محدود اور فکسڈ ہوتے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا میں تقریبا" ہر شخص ہی شریکِ کار ہے یا دوسرے الفاظ میں ہر شخص اس سسٹم میں ایک node کی حیثیت رکھتا ہے۔
اور عموما" یہی دیکھا گیا ہے کہ سوشل نیٹ ورکس میں جس کسی کو بھی کسی بات کی بھنک پڑے، وہ فورا" دوسروں سے شیئر کر دیتا ہے۔
جیسے ہر نئی ٹیکنالوجی یا نئی ایجاد اپنے ساتھ کچھ نقصانات بھی لاتی ہے، اسی طرح سوشل میڈیا کے بھی کافی سارے نقصانات ہو سکتے ہیں۔ جیسے ایک نقصان تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ کسی بھی خبر یا افواہ کی تحقیق سے بھی پہلے وہ پوری دنیا میں نشر ہو جائے گی۔
لیکن بحیثیتِ مجموعی سوشل میڈیا کے بہت سے فوائد بھی ظاہر ہوتے جائیں گے۔ میری رائے میں دنیا کے گلوبل ولیج بننے کا اب تک کا سب سے واضح اور مفید ترین مظاہر سوشل میڈیا کا فروغ ہی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے میں بہت سے ایسے واقعات دیکھے جا سکتے ہیں جن سے میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ میڈیا سے بڑھ کے بھی نئے آسمان وا اور نئی جہات آشکار ہو چکی ہیں۔
ایک مثال تو اسامہ آپریشن کی ہے۔ جس وقت یہ آپریشن ہو رہا تھا تو ایبٹ آباد میں اس گھر سے قریب ہی کوئی نیٹ کی دنیا کا باسی رات کے اس پہر بھی نیٹ پہ بیٹھا ہوا تھا اور آپریشن کے دوران ہونے والی کاروائی کو جس حد تک وہ سمجھ سکا، وہ سب اس نے ٹوئٹر پہ لائیو اپ ڈیٹ کی۔ یہ کسی بھی نیوز ایجنسی سے کہیں پہلے نشر ہونے والی خبر کہلا سکتی ہے۔
اسی طرح حالیہ واقعہ عامر لیاقت والا ہے کہ جس کا تذکرہ میڈیا میں ہے ہی نہیں۔ لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے ہر جگہ یہ بات دھمائی جا چکی ہے۔
فیس بک، ٹوئٹر، یو ٹیوب، ون اردو اور نجانے ایسے کتنے ہی فورمز پہ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہے۔
یہ اور ان جیسے دیگر بے شمار مظاہر دیکھ کے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب ہم سوشل میڈیا کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا کی اس شکل کا نفوذ مزید فزوں تر ہوتا جائے گا۔ کیونکہ کسی بھی وقوعے کی صورت میں سوشل میڈیا زیادہ تیزی سے، زیادہ نیچرل اور نتیجتا" زیادہ مؤثر کوریج کر سکتا ہے۔
سوشل میڈیا کو دوسرے میڈیا سے اس لحاظ سے بھی سبقت یا برتری حاصل ہو جاتی ہے کہ باقی میڈیا میں ان پُٹ والے عناصر تقریبا" محدود اور فکسڈ ہوتے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا میں تقریبا" ہر شخص ہی شریکِ کار ہے یا دوسرے الفاظ میں ہر شخص اس سسٹم میں ایک node کی حیثیت رکھتا ہے۔
اور عموما" یہی دیکھا گیا ہے کہ سوشل نیٹ ورکس میں جس کسی کو بھی کسی بات کی بھنک پڑے، وہ فورا" دوسروں سے شیئر کر دیتا ہے۔
جیسے ہر نئی ٹیکنالوجی یا نئی ایجاد اپنے ساتھ کچھ نقصانات بھی لاتی ہے، اسی طرح سوشل میڈیا کے بھی کافی سارے نقصانات ہو سکتے ہیں۔ جیسے ایک نقصان تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ کسی بھی خبر یا افواہ کی تحقیق سے بھی پہلے وہ پوری دنیا میں نشر ہو جائے گی۔
لیکن بحیثیتِ مجموعی سوشل میڈیا کے بہت سے فوائد بھی ظاہر ہوتے جائیں گے۔ میری رائے میں دنیا کے گلوبل ولیج بننے کا اب تک کا سب سے واضح اور مفید ترین مظاہر سوشل میڈیا کا فروغ ہی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر