ہفتہ، 22 دسمبر، 2012

دس سال بعد کی نیوز ہیڈ لائنز

دس سال بعد کی نیوز ہیڈ لائنز

۔۔۔۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماؤں نے اجلاس کے بعد اعلان کیا ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو کی قاتلوں کا پتا چلا لیا گیا ہے اور اس سال ان کی برسی پہ ان کا اعلان کر دیا جائے گا۔ ایک رپورٹر کے اس سوال پر کہ یہی بات گزشتہ پندرہ سالوں سے ہر سال تواتر سے کہی جا رہی ہے لیکن نتیجہ کچھ نہیں، جواب دیا گیا کہ شٹ اپ یو ایڈیٹ۔


۔۔۔۔۔ وزیرِ خارجہ نے ایران کا دورہ منسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن ضرور بنے گی اور اپنے وقت پہ بنے گی۔ اس سے گیس کی کمی پوری ہو گی۔ نیز یہ کہ پاکستان اور ایران کے درمیان خوشگوار برادرانہ تعلقات ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ بجلی و پانی کے وزیر صاحب نے فرمایا ہے کہ بجلی کی کمی پہ قابو پانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پہ کام جاری ہے۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر دن رات جاری ہے۔ اس کی تعمیر کے لئے اس سال بھی حکومت نے دس لاکھ روپے مختص کر رکھے ہیں۔ اس کے بعد کالاباغ ڈیم بھی بنائیں گے۔

وزیرِاعظم پاکستان نے ایک اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تھر میں کوئلے کے ذخائر سے استفادہ کر کے پاکستان جلد ہی اکنامک سپرپاور بن جائے گا۔ اس کے لئے دن رات کام جاری ہے۔ پانچ کلوواٹ کا آزمائشی پاورپلانٹ بھی کچھ سال تک چل پڑے گا، جس سے بجلی کی قلت پہ قابو پایا جا سکے گا۔


۔۔۔۔۔ وزیرِ مواصلات نے ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ لواری ٹنل پہ کام جاری ہے۔ اس منصوبہ پہ پورے وسطی ایشیا بلکہ یورپ اور امریکہ کا بھی دارومدار ہے۔ حکومت اس منصوبے کو بروقت بلکہ وقت سے پہلے کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ ایک رپورٹر نے جب پوچھا کہ یہ منصوبہ سن انیس سو اٹھاون میں شروع ہوا تھا، ختم کب ہو گا۔ اس پہ جواب دیا گیا کہ جلد ہی۔

۔۔۔۔۔۔ کشمیر کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے جلد ہی عالمگیر مہم چلائی جائے گی۔ اس مقصد کے لئے کمیٹی کے ممبران سوئٹزرلینڈ، امریکہ، برازیل، موریشس، ملائیشیا اور دبئی وغیرہ کے دورے کریں گے۔ نیز یہ کہ بھارت کشمیریوں پہ ظلم ڈھانا بند کرے۔ وغیرہ وغیرہ

۔۔۔۔۔۔ وزیراعلٰی بلوچستان نے کہا ہے کہ گوادر کا منصوبہ ایک بار مکمل ہونے دیں، پھر دنیا پاکستان کی مٹھی میں ہو گی۔ پاکستان حکومت اس منصوبے پہ بہت محنت سے کام کر رہی ہے۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ گزشتہ بیس سال سے گوادر کی چند کلومیٹر سڑکوں کو بناتے چلے جا رہے ہیں اور یہاں کی زمین کے پلاٹ بنا بنا کے بیچے جا رہے ہیں۔ امید ہے کہ اس سے سبھوں کا بھلا ہو گا۔

وغیرہ وغیرہ

2 تبصرے:

  1. ہا ہا ہا۔۔ استاد جی ماسٹر پیس۔ یہی بیس سال بعد کی سرخیاں بھی ہوں گی۔۔۔ استقامت تو ہماری قابلِ دید ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ و نوازش گمنام بھائی۔

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر