جمعہ، 18 جنوری، 2013

ڈرامۂ لانگ مارچ کا سکرین پلے بمعہ ڈراپ سین

ابے سن! تجھے میرا مطالبہ تسلیم کرنا ہی ہو گا۔

بھائی آپکا مطالبہ ہے کیا؟

میرا مطالبہ یہ ہے کہ میں سیاست نہیں، ریاست بچانا چاہتا ہوں۔

یہ تو مشکل ہے سرکار۔

تو پھر لانگ مارچ ہو گا۔

کیجئے جناب، بصد شوق۔

بالکل ہو گا جی لانگ مارچ۔ ہاں سن کہ کوئی گملہ وغیرہ نہیں ٹوٹے گا۔ (ایمان، عہد و پیمان، بھرم وغیرہ ٹوٹنے کی خیر ہے)۔

دیکھیں گے جی۔

ابے لے میں لانگ مارچ بھی لے آیا ہوں۔ اب مان مطالبات۔

لانگ مارچ لے آئے ہیں تو کھڑے کیوں ہیں سرکار۔ بیٹھیں تشریف رکھیں۔ چائے پانی بھیجوں۔

ابے چائے پانی کو چھوڑ (کیونکہ وہ میں بھی وافر مقدار میں لے کے چلا ہوں)۔ میرے مطالباتوں پہ کان دھر۔

مطالبات نہیں مانے جائیں گے جناب۔ آپ یہیں سوکھیں سڑیں۔

اگر یہ بات ہے تو سن کہ لاکھوں کا مجمع اس وقت تک نہیں جائے گا جب تک وقت کے فرعونوں، نمرودوں، یزیدوں وغیرہ کے تخت و تاج نہیں اچھال لے گا۔ ہم یہاں کربلا کے میدان کا ماحول بنا دیں گے۔ ابے انقلاب آ کے رہے گا۔ وی وانٹ چینج وغیرہ۔

مقررہ مقام سے نکلے جناب تو سوٹیاں پڑیں گی۔ ایف آئی آر الگ سے کٹے گی۔

ابے تو ایسے نہیں مانے گا۔ میں لگا ہوں عمران خان کو کال دینے۔

عمران خان نے انکار کر دیا جناب۔ جماعتِ اسلامی نے کال سے بھی پہلے معذرت کر لی۔

اچھا تو چل پھر اپنی پارٹی کو میرے سے مذاکرات پہ بھیج۔ ساتھ آرمی چیف اور جسٹس کو بھی گواہ کے طور پہ لائیو، ورنہ نہیں مانوں گا۔

ارے نہیں قبلہ! کچھ دن لانگ مارچ، دھرنا وغیرہ تو دے لیں۔ وہ کربلا کی باتیں بھی تو۔

ابے ایسا نہ کر یار۔ پلیز مذاکرات کر لے۔ چل صدر کو ہی بھیج دے۔

نہیں جناب۔ صدر صاحب اپنی اندر سبھا میں بزی ہیں۔ ویسے بھی آپ ایسے اہم نہیں ہوئے کہ وہ آپ پہ وقت ضائع کریں۔ انہوں نے پوری ایمانداری اور خلوصِ نیت کے ساتھ کرپشن وغیرہ بھی کرنی ہوتی ہے۔

نہیںںںںں۔ یار صدر نہیں تو، ان کا کوئی نائب ہی بھیج دے مذاکرات کے لئے۔

وہ بھی نہیں آئیں گے جناب۔

ارے چل تو ہی مجھ سے مذاکرات کر لے۔ بھائی نہیں ہے۔

میں کیا مذاکرات کروں جناب۔ مجھے تو مذاکرات کرنے ہی نہیں آتے۔

ارے میں سکھاتا ہوں نا۔ بس ایک کاغذ پہ لکھ کہ اگلے انتخابات فلاں فلاں آرٹیکل کی روشنی میں ہوں گے۔ آگے دستخط بنا میرے اور اپنے۔

اچھا جی۔ اتنا آسان کام۔ ابھی لیجئے، لیکن ایسی جلدی کیا ہے آخر۔

جلدی ہے نا یار۔ کینیڈا کی پہلی فلائٹ لینی ہے نا۔

لیجئے ہو چکے مذاکرات۔

شکریہ۔ چل اب کیمرے کی طرف دیکھ کے میری مانند مسکرا اور ہاتھ شاتھ بھی ملا۔

جی بہتر۔

اچھا اب اجازت لے۔ میں ذرا عوام کو فتح، وکٹری وغیرہ کا جھوٹ بول لوں۔ پھر ایئرپورٹ کیلئے ٹیکسی بھی کرنی ہے۔

جی!!!!!!!۔

جی۔

10 تبصرے:

  1. خیر کاغذات کی تصدیق کے لیے ایک ماہ لینا ہی کامیابی کہہ سکتے ہیں حضرت۔ کیونکہ اب تک تو تین دن ملتے تھے بقول عامر صاحب کے۔ جو واقعی کسی مذاق سے کم نہیں۔۔۔ ہاں اب یہ دیکھنا ہے اس سے اسٹیبلشمنٹ کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔۔ ویسے جتنے وڈے وڈے مطالبات لے کر چلے تھے اس حساب سے تو یہ پسپائی ہے۔ ہم قافلہ حسینی لے کر چلے ہیں جیسی باتیں نہ کرتے تو اور ایم کیو ایم جیسے جمہوریت پسندوں سے یاریاں نہ گھانٹھتے تو یہ بلاشبہ ایک حقیقی کامیابی تھی

    جواب دیںحذف کریں
  2. او بھائی، کونسے تیس دن۔ اس سب بکواس کا الیکشن کمیشن کے رولز آف بزنس سے کسی قسم کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اس کا اصل طریقہ یہ ہوتا کہ اس کاغذ میں یہ لکھتے کہ اسمبلی کے اکیس تاریخ کو ہونے والے اجلاس میں عوامی نمائندگی ایکٹ میں اس بابت ترمیم منظور کرائی جائے گی، تا کہ الیکشن کمیشن اس پہ عمل کرنے کا پابند ہو۔
    یہ سب بکواس تو کاغذ کا پیٹ بھرنے کو اور طاہر الپادری کی بظاہر فیس سیونگ اور دراصل پتلون اتارنے کا سامان کیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. ہا ہا ہا۔۔ صحیح کہا۔۔ اسی ؛یے پسپائی کہا۔ اور اسمبلی کی باتیں اسمبلی جانے ہم تو اس قانون کو سپورٹ کرتے ہیں مگر بات یہ ہے بھائی کہ اسمبلی میں موجوداپوزیش اور دوسرے سٹیک ہولڈرز نہیں مان رہے۔۔۔میرے پاس بیٹھے وڈے بھائی بھی یہی کچھ کہہ رہے تھے مگر ہم سب مشترکہ طور پہ بھی بہنوئی صاحب کی خدمت میں یہ گزارشات عرض نہیں کر سکے۔ بات وہی۔ یسا اندھی تقلید یا اندھی تنقید۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. واہ بھائی جان

    آپ نے تو ایک صفحہ میں لانگ مارچ کی اسٹوری لکھ دی ۔

    بہت خوب۔۔۔۔۔ واقعی میں مزہ آگیا !!!

    جواب دیںحذف کریں
  6. ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔
    کسی نے صحیح تبصرہ کیا کہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا اور وہ بھی مرا ہوا۔
    ہم تو اس سارے دھرنے کی پیچھے امریکی سازش تلاش کرتے رہ گئے اور پتا یہ چلا کہ معاملہ چپل چوری کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. فلائیٹ کنفرم ہو گئی ہے جی۔۔ ۲۷ کو شیخ دبئی میں جلوہ افروز ہوں گے اور ودھر سے کینیڈا۔۔ انقلاب مکمل

    جواب دیںحذف کریں
  8. ہا ہا ہا۔۔ رائل کینیڈین مانیٹرنگ پولس نے شیخ کو ۵ فروری کو طلب کر لیا ہے۔۔ تفشیش ہو گی کہ جس ملک میں جان کو خطرہ تھا وہاں کیوں گئے۔۔ کینیڈین شہریوں کے لیے مناہی ہے ایسی جگہوں پہ جانے کی۔۔ اور حضرت شیخ ۲۰۰۸ میں وہاں پناہ لیتے سمے یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں جان کو خطرہ ہے۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر