جمعرات، 3 جنوری، 2013

ایم کیو ایم اور طلاقِ رجعی کا بیان!!

نجانے کتنی بار یہ ڈرامہ کھیلا جا چکا ہے۔ اب تو اس کا شمار بھی مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن گزشتہ ساڑھے چار، پانچ سالوں میں ہر سال ایک سے زیادہ دفعہ یہ ڈرامہ کم و بیش اسی ترتیب سے دہرایا جاتا ہے۔
آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے اچانک بغیر کسی فوری وجہ کے زرداری حکومت کو آنکھیں دکھائی جاتی ہیں۔ کچھ بار تو ایم کیو ایم کے وزراء نے عہدے بھی چھوڑ دیئے۔
اور ہر دفعہ یہی لگتا ہے کہ ایم کیو ایم اب اس حکومت سے سیاسی طلاق لے چکی ہے۔

اس کے بعد رحمان ملک، جو کہ اب ماہرِ امورِ ایم کیو ایم مانے جاتے ہیں، کی لندن کو روانگی ہوتی ہے۔ کچھ دفعہ زرداری صاحب کی لندن یاترا بھی ہوئی۔ اس کے بعد درج ذیل دو میں سے کم از کم ایک کام ضرور ہوتا ہے۔
ایک تو یہ کہ برطانوی انتظامیہ یا سکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے اچانک ہی کچھ ایسے اشارے ملتے ہیں کہ عمران فاروق کے قاتلوں کی گرفتاری میں پیش رفت ہوئی ہے۔ جلد قاتلوں تک پہنچیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔
دوسرے یہ کہ رحمان بابا یا زرداری صاحب کی قائدِ تحریک جناب الطاف حسین سے ملاقات ہوتی ہے۔

اور ایک آدھ دن کے اندر اندر ہی انتہائی بے شرمی، شدید بے غیرتی اور بے مثال ڈھٹائی کے ساتھ ایم کیو ایم سابقہ تنخواہ پہ ہی واپس آ جاتی ہے۔ علم ہوتا ہے کہ وہ طلاق تو اصل میں طلاقِ رجعی تھی۔
اتمامِ حجت کے لئے زیادہ سے زیادہ یہ بیان داغ دیا جاتا ہے کہ صدر یا وزیرِ داخلہ نے ہمارے مطالبات تسلیم کرنے کا یقین دلایا ہے۔

پتا نہیں اس سارے ڈرامے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟
ہر بار اس کا سکرپٹ یہی کیوں ہوتا ہے؟
اور ہر بار ایک ہی انجام کو کیوں جا پہنچتا ہے؟

کوئی بتا سکتا ہے کیا؟

3 تبصرے:

  1. جناب ۔ یہ ٹوپی ڈرامے اُن عقل سے پیدل لوگوں کو مزید بیوقوف بنانے کیلئے کئے جاتے ہیں جو زرداری اور الطاف کی پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. وہ سب کچھ تو ہمارے سیاست دانوں کے ہر فعل کا ہی بنیادی مقصد ہے اجمل بھائی ۔ ۔ یعنی کہ جاہل، جذباتی عوام کو بے وقوف بنانا۔

    میں اس بابت توجہ دلانا چاہ رہا تھا کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے کیس کا اس سب کہانی سے کیا لینا دینا ہے کہ اس سب ڈرامے میں اس کیس کا ذکر بھی تقریباً ہر بار ہی ہوتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. اس میں تعجب کی کیا بات ہے ۔ اب تو سب اس بات کے عادی ہو گئے ہیں دیکح دیکھ کر

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر