جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ قائدِ انقلاب، شیخ الاسلام جناب طاہرالقادری صاحب نے اس بار سردیوں کی بجائے گرمیوں کی کچھ چھٹیاں پاکستان میں گزارنے کا اعلان فرما دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ اس بار میں ملک میں انقلاب بھی لاؤں گا۔ یہ تقریبا" ایسا ہی ہے جیسے بندہ ٹماٹر لینے دکان پہ جا رہا ہو اور گھر سے کوئی آواز دے کہ ٹماٹر کے ساتھ دھنیا بھی لے کے آنا، سو اسی طرز پہ جناب قادری صاحب اپنی چھٹیوں کو دلچسپ بنانے کے لئے انقلاب کا ڈرامہ بھی رچائیں گے۔
ایسے موقعے پہ ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ان کی کچھ مدد کی جائے۔ اپنے تئیں لکھاری کے دعویدار ہونے کی وجہ سے سب سے بہتر مدد یہی کر سکتے ہیں کہ ان کے لئے ایک عدد تقریر لکھ کے دی جائے۔ سو پیشِ خدمت ہے تقریر کا مسودہ جو کہ ان کی پاکستان آمد سے پہلے کی تقریر کے لئے ہے۔
پیارے پاکستانیو! السلام علیکم
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میں سیاست نہیں ریاست بچانا چاہتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ سب بھی یہی چاہتے ہیں۔ انقلاب کی منزل آسان نہیں ہوتی، اس کے لئے جان ہتھیلی پر لے کے نکلنا ہوتا ہے۔ تو میں بھی اس بار جان ہتھیلی پر لے کے پاکستان آ رہا ہوں۔ ارے کم بختو یہ تم لوگوں کی جان کی بات کر رہا ہوں۔ اپنی حفاظت کے لئے میں پاکستان کی مسلح افواج سے گزارش کروں گا کہ وہ ایئرپورٹ سے میری سیکورٹی سنبھال لیں اور جلسہ گاہ یا احتجاج گاہ تک اپنے سب کمانڈوز میری حفاظت پہ لگا دیں۔ ویسے میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں۔ لیکن آپ سب کو علم ہی ہے کہ میری جان ریاست بچانے کے لئے کتنی قیمتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ میرے لئے وہی پرانے والا شہادت پروف کنٹینر ہی نہیں لا رکھنا۔ آپ کو پتا ہی ہے کہ اس میں ہیٹرز کا انتظام تھا، جس کی وجہ سے سخت سردی میں جب باہر آپ سب لوگ ٹھٹھر رہے تھے تو اندر مجھے آستینیں کھولنا پڑی تھیں۔ اب چونکہ سخت گرمی کا موسم ہے تو کنٹینر میں تگڑا سا اے سی بمعہ جنریٹر کے موجود ہونا چاہئے تاکہ اچھی طرح سے انقلاب لایا جا سکے۔
باقی آپ اس چیز کی فکر نہ کریں کہ اس سخت گرمی میں میرے جلسے یا احتجاج میں کم لوگ آئیں گے۔ میں نے منہاج القران کے سب سکولوں کالجوں کے ملازمین و اساتذہ کی جلسہ گاہ میں حاضری کو یقینی بنانے کا انتظام کر رکھا ہے۔ ویسے بھی ملک میں کافی بیروزگاری ہے تو کوئی لگی لگائی نوکری کو لات مارنا پسند نہیں کرے گا۔
اور ہاں میں مسلح افواج سے یہ بھی اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ جلسہ گاہ کے قریب کچھ بکروں اور قصائی کا بھی انتظام کیا جائے تا کہ اگر کوئی ڈرامے بازی کرنے کا من ہو تو بکرے کا خون لگا کے تصویریں کھنچوا سکوں۔ خیال رہے کہ خون بکرے کا ہو، بکری کا نہ ہو۔ ورنہ انقلاب اچھی طرح سے نہیں آ سکے گا۔
اور یہ کہ لوگ کہتے ہیں کہ میں مغرور اور نک چڑھا ہوں۔ آپ خود ہی بتائیں کہ اگر میں مغرور ہوتا تو آپ جیسے ٹکے ٹکے کے لوگوں سے اتنی عزت اور احترام سے بات کرتا۔
اور آخری بات پی آئی اے والوں سے کہ کینیڈا کے ٹکٹ کا بھی انتظام کر رکھیں، تا کہ اگر یہاں انقلابی دال اس بار بھی نہ گل سکی تو باعزت یا بے عزت نکلنے کا بھی سارا انتظام موجود رہے۔ اگر بروقت ٹکٹ کا انتظام نہ کیا گیا تو اس کو پی آئی اے والوں کی جانب سے انقلاب کے خلاف سازش سے تعبیر کیا جائے گا۔
ایسے موقعے پہ ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ان کی کچھ مدد کی جائے۔ اپنے تئیں لکھاری کے دعویدار ہونے کی وجہ سے سب سے بہتر مدد یہی کر سکتے ہیں کہ ان کے لئے ایک عدد تقریر لکھ کے دی جائے۔ سو پیشِ خدمت ہے تقریر کا مسودہ جو کہ ان کی پاکستان آمد سے پہلے کی تقریر کے لئے ہے۔
پیارے پاکستانیو! السلام علیکم
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میں سیاست نہیں ریاست بچانا چاہتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ سب بھی یہی چاہتے ہیں۔ انقلاب کی منزل آسان نہیں ہوتی، اس کے لئے جان ہتھیلی پر لے کے نکلنا ہوتا ہے۔ تو میں بھی اس بار جان ہتھیلی پر لے کے پاکستان آ رہا ہوں۔ ارے کم بختو یہ تم لوگوں کی جان کی بات کر رہا ہوں۔ اپنی حفاظت کے لئے میں پاکستان کی مسلح افواج سے گزارش کروں گا کہ وہ ایئرپورٹ سے میری سیکورٹی سنبھال لیں اور جلسہ گاہ یا احتجاج گاہ تک اپنے سب کمانڈوز میری حفاظت پہ لگا دیں۔ ویسے میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں۔ لیکن آپ سب کو علم ہی ہے کہ میری جان ریاست بچانے کے لئے کتنی قیمتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ میرے لئے وہی پرانے والا شہادت پروف کنٹینر ہی نہیں لا رکھنا۔ آپ کو پتا ہی ہے کہ اس میں ہیٹرز کا انتظام تھا، جس کی وجہ سے سخت سردی میں جب باہر آپ سب لوگ ٹھٹھر رہے تھے تو اندر مجھے آستینیں کھولنا پڑی تھیں۔ اب چونکہ سخت گرمی کا موسم ہے تو کنٹینر میں تگڑا سا اے سی بمعہ جنریٹر کے موجود ہونا چاہئے تاکہ اچھی طرح سے انقلاب لایا جا سکے۔
باقی آپ اس چیز کی فکر نہ کریں کہ اس سخت گرمی میں میرے جلسے یا احتجاج میں کم لوگ آئیں گے۔ میں نے منہاج القران کے سب سکولوں کالجوں کے ملازمین و اساتذہ کی جلسہ گاہ میں حاضری کو یقینی بنانے کا انتظام کر رکھا ہے۔ ویسے بھی ملک میں کافی بیروزگاری ہے تو کوئی لگی لگائی نوکری کو لات مارنا پسند نہیں کرے گا۔
اور ہاں میں مسلح افواج سے یہ بھی اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ جلسہ گاہ کے قریب کچھ بکروں اور قصائی کا بھی انتظام کیا جائے تا کہ اگر کوئی ڈرامے بازی کرنے کا من ہو تو بکرے کا خون لگا کے تصویریں کھنچوا سکوں۔ خیال رہے کہ خون بکرے کا ہو، بکری کا نہ ہو۔ ورنہ انقلاب اچھی طرح سے نہیں آ سکے گا۔
اور یہ کہ لوگ کہتے ہیں کہ میں مغرور اور نک چڑھا ہوں۔ آپ خود ہی بتائیں کہ اگر میں مغرور ہوتا تو آپ جیسے ٹکے ٹکے کے لوگوں سے اتنی عزت اور احترام سے بات کرتا۔
اور آخری بات پی آئی اے والوں سے کہ کینیڈا کے ٹکٹ کا بھی انتظام کر رکھیں، تا کہ اگر یہاں انقلابی دال اس بار بھی نہ گل سکی تو باعزت یا بے عزت نکلنے کا بھی سارا انتظام موجود رہے۔ اگر بروقت ٹکٹ کا انتظام نہ کیا گیا تو اس کو پی آئی اے والوں کی جانب سے انقلاب کے خلاف سازش سے تعبیر کیا جائے گا۔
کمال ہے جی ۔ آپ نے تو سب کچھپہلے ہی بتا دیا ۔ اب ذرا ان صاحب کی اسلامی شیخی کا چھوٹا سا نمونہ بھی دیکھئے
جواب دیںحذف کریںعرفان القرآن سوت البقرہ آیت 9 ۔ یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ؕ
درست ترجمہ ہے ”۔ وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں“۔
طاہرالقادری لکھتے ہیں ۔ ”وہ اللہ کو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے“۔
نیچے تفسیر یوں لکھتے ہیں ”اس مقام پر مضاف محذوف ہے جو کہ رسول ہے یعنی یُخٰدِعُونَ اﷲَ کہہ کر مراد یُخٰدِعُونَ رَسُولَ اﷲِ لیا گیا ہے۔ اکثر ائمہ تفسیر نے یہ معنی بیان کیا ہے۔ بطور حوالہ ملاحظہ فرمائیں : تفسیر القرطبی، البیضاوی، البغوی، النسفی، الکشاف، المظھری، زاد المسیر، الخازن وغیرہ“
یہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا صاف سادہ خطاب ہے میرے پاس ساری معروف تفاسیر ہیں کسی نے اس قسم کے ترجمہ کا شُبہ بھی رقم نہیں کیا ۔ موصوف نے جو حوالے دیئے ہیں ان میں سے مجھے ایک لائبریری سے ” تفسیر المظھری“ ملی ہے جس میں طاہر القادری کا کیا ہوا ترجمہ درست قرار دینے کا معولی شائبہ بھی نہیں
میں موصوف کے کئے ہوئے ترجمہ سے مزید حوالے دے کر آپ کے ذہن کو پریشان نہیں کرنا چاہتا ۔ میں 1990ء تک طاہرالقادری کو ذہین عال سمجھتا تھا ۔ جب ان کے عمل اور کئے قرآن شریف کے ترجمہ کا مطالعہ شروع کیا تو توبہ توبہ کر اُٹھا