جمعہ، 6 جون، 2014

ہاؤ ٹو گیٹ فلدی رچ ان رائزنگ ایشیا از محسن حامد

پاکستان سے تعلق رکھنے والے اور انگلش زبان میں ناول یا کتب لکھنے والوں میں عہدِ حاضر کا روشن ترین نام محسن حامد کا ہے۔ جنہوں نے اپنے گزشتہ دو ناولز یعنی دی موتھ سموک اور دی ریلکٹنٹ فنڈامنٹلسٹ سے عالمگیر شہرت حاصل کی۔ ان کا تیسرا ناول گزشتہ سال شائع ہوا تھا۔ ناول کے نام کا اردو ترجمہ کچھ یوں بنے گا "ترقی پذیر ایشیا میں دھن بنانے کے طریقے"۔ تاہم اصل نام کچھ یوں ہے۔ ہاؤ ٹو گیٹ فلدی رچ ان رائزنگ ایشیا ،،، یعنی
How to Get Filthy Rich in Rising Asia

میں نے یہ ناول کچھ ہی دن قبل ای فارمیٹ میں پڑھا ہے۔ کافی عرصے بعد ایسی فراغت میسر ہوئی تھی کہ ایک ہی دن میں دو نشستوں میں ناول ختم کر کے ہی دم لیا۔ اس ناول کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ محسن حامد نے ایک بار پھر زبردست چیز پیش کی ہے اور اپنے سٹینڈرڈ کو نیچے نہیں آنے دیا۔


یہ ناول ایک علامتی طریقہ کار میں لکھا گیا ہے۔ انداز ایسا اپنایا ہے جیسے سیلف ہیلپ کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ تاہم محسن حامد اس کی حدود کے اندر اندر ہی ناول کے مرکزی کردار کی کہانی کو واحد متکلم کی شکل میں بیان کیا ہے۔ یعنی جیسے لکھا جائے کہ تم ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے تم نے غربت دیکھی۔ تمہارے امیر ہونے کی سیڑھی چڑھنے کا پہلا قدم تب لیا گیا، جب تمہارے والد نے مزدوری کے لئے اپنے کنبے سمیت شہر جانے کی ٹھان لی۔ وغیرہ وغیرہ۔

ناول کا مرکزی خیال جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے کہ ترقی پذیر معاشرے میں امیر ہونے کے حربے یا سٹیجز کا ذکر کیا گیا ہے۔ مصنف نے مجموعی طور پہ بارہ سٹیجز یا مراحل بیان کئے ہیں اور ناول کا ہر ایک باب ایک سٹیج کے لئے مختص ہے۔ سٹیجز کچھ اس قسم کی ہیں۔

موو ٹو دی سٹی یعنی شہر کو منتقلی

ڈونٹ فال ان لو یعنی پیار محبت سے پرہیزی

لرن فرام اے ماسٹر یعنی کسی ماہر استاد سے مال کمانا سیکھو

بی پریپیئرڈ ٹو یوز وائلنس یعنی ضرورت پڑنے پہ تشدد کا استعمال ضروری ہے

وغیرہ وغیرہ

کہانی کی مختصر ترین تلخیص کچھ یوں ہے کہ ایک غریب بچے کی فیملی جب شہر منتقل ہو جاتی ہے تو سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے سکول اور پھر کالج وغیرہ جانا بس اسی کو نصیب ہوتا ہے۔ اس کے بعد مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے وہ بچہ پیسہ کمانے کے گر سیکھتا ہے اور جلد ہی پینے کے پانی کی بوتلیں پیک کرنے کا سیٹ اپ لگاتا ہے، جو کہ شہر میں ایسی سہولیات کی کمیابی کی وجہ سے خاصا کامیاب ہونے لگتا ہے۔ اسی بزنس میں وہ مزید سیڑھیاں چڑھتا جاتا ہے اور بیوروکریٹوں کو مال لگا لگا کے سرکاری ٹھیکے بھی لیتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ یعنی متوازی اسی کی ہم عمر ایک لڑکی کی داستان بھی کچھ کچھ بیان کی جاتی ہے جو کہ شوبزنس میں اینٹر ہوتی ہے اور عروج و زوال و عروج وغیرہ کے مراحل سے گزرتی ہے۔

کہانی کا سیٹ اپ کافی حد تک پاکستان کا ہے، تاہم مصنف نے کسی بھی جگہ کسی ملک یا شہر یا کسی بھی سپیسیفیک چیز کا نام استعمال نہیں کیا ہے۔ دیکھا جائے تو اس ناول کا سیٹ اپ ایشیا کے زیادہ آبادی والے ترقی پذیر ممالک میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے یعنی پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، فلپائن، تھائی لینڈ وغیرہ

بحیثییتِ مجموعی یہ ایک شاندار ناول ہے اور پڑھنے کے لئے ریکمنڈڈ ہے۔ تاہم ہو سکتا ہے کہ ہر قاری اس کو زیادہ دلچسپ محسوس نہ کرے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر