ہفتہ، 18 جون، 2011

انہیں جیتنے مت دینا

چلو بازار چلیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔ بازار نہیں جانا۔ آج کل حالات اچھے نہیں ہیں۔ کہیں بھی دھماکہ ہو جاتا ہے۔ کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جمعے کی نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ چلو چلیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ یار جمعہ تو ہر سات دن بعد پھر آ جاتا ہے۔ لیکن مساجد محفوظ ہی نہیں ہیں۔ میں تو نہیں جا رہا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہم نے اپنے بچوں کو بحریہ فاؤنڈیشن سکول میں داخل کرانا تھا، لیکن پتا چلا ہے کہ اس سکول کو بھی بڑا تھریٹ ہے، اس لئے ہم نے بچوں کو اپنی کالونی کے عام سے سکول میں مجبورا” داخل کروا لیا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں تو یہاں اپنا مستقبل نہیں دیکھ رہا۔ یہاں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ میں تو باہر جانے کی پلاننگ کر رہا ہوں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پہلے تو ہم بیس منٹ میں آفس پہنچ جاتے تھے، لیکن اب اتنے زیادہ ناکے ہیں راستے میں کہ اکثر اوقات ایک گھنٹہ بھی لگ جاتا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آپ پاکستان آ رہے/رہی ہیں۔ کیوں؟ یہاں کے تو حالات ہی ایسے نہیں ہیں۔ آپ کو بالکل بھی نہیں آنا چاہئے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ اور اس جیسے بے شمار جملے روزانہ ہی سننے کو ملتے ہیں۔ ان کو جھوٹ یا غلط یا غیر ضروری بھی نہیں کہا جا سکتا کہ حقائق بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔



لندن میں چند سال پہلے ٹیوب سٹیشنز پہ سیون سیون یعنی سات جولائی کو دھماکے ہوئے تھے۔ کافی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ ٹونی بلیئر کا اس واقعے کے بعد جو پہلا بیان میں نے سنا۔ وہ یہ تھا کہ ہم کسی کو برٹش عوام کا لائف سٹائل تبدیل کرنے نہیں دیں گے۔

ذرا غور کیجئے، ویژن کی بات۔ کہ اس نے اس وقت یہ اندازہ لگایا کہ دہشت گردی کا اور کچھ مقصد نہیں ہے سوائے لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے، ان کا لائف سٹائل تبدیل کرنے کے، ان میں بے یقینی پیدا کرنے کے۔ ہلاکتوں کو ہم شاید نہ روک پائیں، لیکن اپنے لوگوں کے لائف سٹائل کو بچا لیں تو بھی دہشت گرد ناکام ہیں۔

یہ تو یقینا” سچ ہے کہ دہشت گردی کو مکمل طور پہ کوئی بھی نہ روک سکے شاید۔ جتنے مرضی وسائل لگا لیں، جتنی بھی سیکورٹی سخت کر دیں۔ لیکن آپ دہشت گردی کو مکمل طور پہ نہ روک پائیں گے۔

اور اگر انتہائی بے رحمی کے ساتھ صرف اعداد و شمار کی زبان میں بات کریں تو دہشت گردی سے کتنی کچھ اموات ہوتی ہیں۔ ہفتے میں دس، بیس۔ مہینے میں سو، سوا سو۔ جبکہ اس سے کہیں زیادہ تو عام بیماریوں ہیضہ، ٹی بی، ہیپاٹائٹس وغیرہ سے ہو جاتی ہیں۔ لیکن ان پہ ایسا خوف و ہراس کیوں نہیں۔ ان پہ سیکورٹی کیوں سخت نہیں کی جاتی۔ ان کا اتنا ڈر کیوں نہیں۔ ان کے خوف کا ہماری زندگیوں پہ ایسا اثر نہیں۔

اس سب بات سے یہی سمجھ آتا ہے کہ دہشت گردی کا اصل مقصد بندے مارنا یا لاشوں کا سکور بنانا نہیں ہے۔ بلکہ آپ کی ہم سب کی زندگیوں کو بدلنا ہے۔ آپ کا لائف سٹائل بدلنا ہے۔ آپ ہر دم خوف میں مبتلا ہوں۔ کہیں بھی جانے سے پہلے سو بار سوچیں۔ ذرا سی آواز پہ ڈر یا چونک جائیں۔

اگر دہشت گرد اس مقصد کو پا لیتے ہیں تو پھر وہ کامیاب ہیں۔ اور اگر اس میں ناکام ہیں تو دھماکوں، ہلاکتوں، خودکش حملوں کے باوجود وہ ناکام ہیں۔

اگر ہو سکے تو ان کو ناکام بنانا۔
انہیں جیتنے مت دینا۔

6 تبصرے:

  1. آمنہ احمدجون 21, 2011

    ہمیشہ کی طرح معلوماتی اور مفید تحریر۔۔۔۔ اور بلاگ کی آؤٹ لک اس سے بھی اچھی۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. السلام علیکم یاز بھائی

    یاز بھائی میں ون اردو کا ایک ممبر ہوں۔ مجھے آپ سے ایک بہت ضروری پرسنل کام ہے۔ برائے مہربانی رابطہ کرنے کا طریقہ بتائیے۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. وعلیکم السلام جناب

    سب سے آسان نسخہ تو فیس بک ہے۔ میرا نک ہے
    yazi jee

    ورنہ میل کر دیں۔
    yazghil2@yahoo.com

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر