درج ذیل واقعہ یا حکایت کہیں پہ پڑھی تھی۔ بات مختصر سی ہے، لیکن تاثر بہت سا چھوڑ گئی۔
کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی
نے اپنے غلام ایاز کو ایک انگوٹھی دی اور کہا کہ اس پر ایک ایسی عبارت
تحریر کرو جسے میں اگر خوشی میں دیکھوں تو غمگین ہو جاؤں
اور اگر غمی میں دیکھوں تو خوش ہو جاؤں۔
ایاز نے کچھ دن بعد انگوٹھی یہ لکھ کر واپس کر دی کہ "یہ وقت گزر جائے گا"۔
اور اگر غمی میں دیکھوں تو خوش ہو جاؤں۔
ایاز نے کچھ دن بعد انگوٹھی یہ لکھ کر واپس کر دی کہ "یہ وقت گزر جائے گا"۔
بہت قیمتی جملہ ہے
جواب دیںحذف کریںمگر میں ایسے سنا تھا ۔ ۔
" یہ وقت بھی گذر جائے گا "
جزاک اللہ
میں نے شاید یہ واقعہ سترہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں پڑا تھا اور مُسکرا دیا تھا کیونکہ میں 1947ء میں جب میری عمر دس سال تھی اپنی دو بہنوں کے ساتھ اپنے تمام عزیز و اقارب سے بچھڑ گیا تھا اور ہم تین ماہ کے قریب بچھڑے رہے ۔ یہ عرصہ جس طرح خوف و دہشت میں گذرا کئی سال محسوس ہوا تھا اور ہمیں یہی خیال تھا کے باقی سب ہلاک کر دیئے ہوں گے ۔ وہ تین ماہ اسی اُمید میں گذرے تھے کہ اللہ اس وقت کو گذار دے گا اور پھر آج تک میں ایک لمحہ کیلئے نہیں بھولا کہ ”وقت گذر جاتا ہے“۔ شاید اسی وجہ سے میں نے اپنی نویں جماعت کی کاپی پر لکھا تھا ۔ یقینِ مُحکم عملِ پیہم پائے راسخ چاہئیں ۔ استقامت دل میں ہو اور لب پر خدا کا نام ہو
جواب دیںحذف کریںانسان جو کچھ بھی ہے اللہ کی دی ہوئی توفیق سے ہے