ایک جگہ پہ ایک
باز اور ایک مرغ اکٹھے بیٹھے تھے۔ باز مرغ سے کہنے لگا کہ میں نے تیرے جیسا
بے وفا پرندہ نہیں دیکھا۔ تو ایک انڈے میں بند تھا۔ تیرے مالک نے اس وقت
سے تیری حفاظت اور خاطر خدمت کی، تجھے زمانے کے سرد و گرم سے بچایا۔ جب تو
چوزہ تھا تو تجھے اپنے ہاتھوں سے دانہ کھلایا اور اب تو اسی مالک سے بھاگا
پھرتا ہے۔
مجھے دیکھ، میں آزاد پرندہ تھا، میرے مالک نے مجھے پکڑا تو سخت قیدو بند میں بھوکا پیاسا رہا، مالک نے بہت سختیاں کیں لیکن جب بھی مالک شکار کے پیچھے چھوڑتا ہے تو شکار کو پکڑ کر اسی مالک کے پاس ہی لاتا ہوں۔
مرغ کہنے لگا۔ "تیرا اندازِ بیان شاندار ہے اور تیری دلیل میں بہت وزنی لگتی ہے، لیکن اگر تو دو باز بھی سیخ پہ ٹنگے ہوئے دیکھ لے تو تیری دلیل دھری کی دھری رہ جائے اور کبھی لوٹ کر مالک کے پاس واپس نہ آئے۔"
کہیں مرغ کا بلاگ شروع کرنے کا ارادہ تو نہیں؟ :)
جواب دیںحذف کریںپس ثابت ہوا کہ باز پرانے دور اور پرانے خیالات و نظریات کا مالک جبکہ مرغ دور جدید کا جدید خیالات رکھنے والا جانور ہے۔
جواب دیںحذف کریں