آج کے اخبار کی شہ
سرخی کافی چونکا دینے والی ہے۔ سب سے پہلے خبر دیکھئے، جو آج یعنی ۱۳ نومبر
کے جنگ اخبار کی ہے۔
Quote:
اس کے بعد بی بی اردو کی ویب سائٹ کے اس لنک سے یہ مواد
Quote:
ایک لاکھ امریکیوں نے پٹیشن میں وائٹ ہاؤس سے
مطالبہ کیا ہے کہ اجازت دی جائے کہ ان کی ریاستیں امریکہ سے علیحدہ ہو
جائیں۔
یہ پٹیشن صدر براک اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد دی گئی ہے۔ یہ پٹیشن وائٹ ہاؤس کی ’وی دی پیپل‘ ویب سائٹ پر بھیجی گئی ہے۔ جن ریاستوں سے یہ علیحدگی کی پٹیشن دی گئی ہیں یہ وہ ریاستیں ہیں جنہوں نے صدارتی امیدوار مٹ رومنی کو ووٹ دیے تھے۔ امریکی آئئن میں کوئی ایسی شق نہیں ہے جو ریاستوں کو امریکہ سے علیحدہ ہونے کا حق دیتی ہے۔ پیر کی رات تک وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس پٹیشن کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا تھا۔ علیحدگی کے لیے بیس پٹیشنز فائل کی گئیں۔ ٹیکساس سے جو پٹیشن داخل کی گئی اس کی حمایت پچیس ہزار لوگوں نے کی۔ سب سے زیادہ مقبول پٹیشن ٹیکساس ہی سے ہے۔ اس پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ امریکیوں کے حقوق کی پامالی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ کسی بھی پٹیشن پر وائٹ ہاؤس کی جانب سے ردِ عمل اس وقت دیا جاتا ہے جب تک اس کی حمایت پچیس ہزار تک نہ پہنچے۔ آخری بار باضابطہ طور پر جب ریاستیں امریکہ سے علیحدہ ہوئی تھی تو اس پر خانہ جنگی چھڑ گئی تھی۔ |
میں اپنی بات کروں تو میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو "امریکہ ٹوٹ رہا ہے"، "امریکہ کو عبرت ناک شکست" وغیرہ کا خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھ کے خوش ہوتے پھرتے ہیں۔
میری سمجھ کے مطابق
جس ملک کے گورے عوام ایک کالے کو اپنا صدر منتخب کر سکتے ہیں
جس ملک میں ایک صدر سے سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس فلاں فلیٹ کہاں سے آیا
اور جس ملک میں دنیا کے طاقتور ترین ادارے کا سربراہ ایک ایسی بات پہ جو اس معاشرے میں بڑی برائی بھی نہ ہو، یہ کہہ کہ عہدہ چھوڑ دے کہ ایسے ادارے کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسا کام کرے۔
ایسے ملک ٹوٹا نہیں کرتے، بلکہ مضبوط ہوا کرتے ہیں۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ یہ بھی سوچا جائے کہ ملک کیا ہے اور اس کی مضبوطی کیا چیز ہے۔
کیا ملک ایک جاگیر نما چیز ہے کہ جس کا رقبہ جتنا زیادہ ہو گا، وہ ملک اتنا بڑا، عظیم، مضبوط اور طاقتور ہو گا۔
ایسا ہوتا تو دنیا میں صرف بڑے رقبے والے ممالک ہی مضبوط ممالک ہوتے۔
اس میں ایک نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ کم و بیس ایسا ہی ہے۔ بڑے رقبے والے ممالک یعنی امریکہ، روس، چین وغیرہ ہی تو سپر پاورز ہیں۔
لیکن اگر ایسا ہوتا تو بیلجیئم، لکسمبرگ، موناکو، سنگاپور وغیرہ کو تو شرمندگی سے مر جانا چاہئے تھا۔ چیونٹی جیسے ممالک جن کو کوئی انگلی سے ہی مسل دے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ سب سے مضبوط ملک دو باتوں کی بدولت ہے:
ایک تو جو اپنے عوام کو سب سے بہتر معیارِ زندگی دے رہا ہے، جہاں کے عوام سب سے زیادہ چین اور شانتی میں ہیں، جو اپنے لوگوں کو بہترین نظام (انصاف، گوورننس وغیرہ) دے رہا ہے۔۔ اکثر اخبارات و جرائد میں لِونگ سٹینڈرڈز، پرامن ترین یا موسٹ لِوایبل ممالک یا شہروں کا سروے دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس میں حیران کن بات یہ سامنے آتی ہے کہ وہی چھوٹے چھوٹے اور رقبے آبادی وغیرہ کے لحاظ سے غیراہم ممالک کا نام ٹاپ آف دی لسٹ میں ہوتا ہے۔ مثلا ملکوں میں فن لینڈ، آئس لینڈ، نیوزی لینڈ، لکسمبرگ، سوئٹزرلینڈ، موسٹ لوایبل شہروں میں ویانا، کوپن ہیگن، ہیلسنکی، کیلگری وغیرہ کا نام سر فہرست نظر آتا ہے۔
اسی کے ساتھ دوسری وجہ یہ کہ وہ ملک دنیا کے لئے کتنا ضروری ہے اور دنیا کے معاشی، معاشرتی، تعلیمی، ثقافتی لینڈ سکیپ میں کتنا کنٹری بیوٹ کر رہا ہے۔
مثلا" فن لینڈ موبائل بناتا ہے اور ایک عالم اس کا استعمال کرتا ہے۔ میری نظر میں فن لینڈ بھی سپر پاور ہے۔ بھلے اس کے پاس ایٹم بم، میزائلیں یا لاکھوں کی فوج نہ بھی ہو۔
اسی طرح امریکہ میں لاس اینجلز فلمیں بناتا ہے اور پوری دنیا ان فلموں کو دیکھنے کے لئے سینماؤں پہ ٹوٹ پڑتی ہے۔ نیویارک پوری دنیا کے لئے کتابیں، میگزین وغیرہ چھاپتا ہے۔
سنگاپور، دبئی، ہانگ کانگ، تائیوان وغیرہ پوری دنیا کی معیشت، صنعت اور تجارت وغیرہ کے لئے ضروری بن چکے ہیں۔ میری نظر میں ان کا درجہ بھی سپر پاورز جیسا ہو سکتا ہے۔
تو ایسا ملک جس میں عوام سکون سے رہ رہے ہیں اور دنیا کے لئے اس کا ضروری پن بھی برقرار ہے تو اس کے ٹوٹ جانے، عبرت کا نمونہ بن جانے کے نعرے شاید زیادہ وزن نہ رکھتے ہوں۔
اگلی بات آتی ہے کہ پھر علیحدگی کیوں اور اس سے کیا مراد لی جائے۔
اس پہ بات کرنے سے پہلے چند ہفتے قبل کی خبر دہراتا چلوں جس میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ بھی "ٹوٹنے" لگا ہے اور اگلے سال سکاٹ لینڈ والے ریفرنڈم کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کر لیں گے کہ وہ برطانیہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں کہ الگ خودمختار ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ہی میرے جیسے بہت سوں کی خوشی کو گہن لگ گیا جب یہ خبر یا تجزیہ سامنے آیا کہ سکاٹ لینڈ والوں کی اکثریت شاید الگ ہونا پسند نہ کرے گی۔
کیوں نہیں کرے گی۔ اس کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے اور وہ ہے نظام پہ اعتماد۔ کسی کو ناانصافی کا خوف نہیں ہے، نہ ہی اس کی فکر کہ گلاسگو کی پٹ سن سے لندن میں سڑکیں بننے لگی ہیں یا ڈنڈی سے نکلی گیس کے سی این جی سٹیشن مانچسٹر میں جا لگے ہیں۔
حضرت علی نے کہا تھا کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے، ناانصافی کی نہیں۔
کچھ ایسا ہی چرچل نہیں بھی کہا کہ جب تک برطانوی عدالتیں لوگوں کو انصاف دے رہی ہیں، اس وقت تک کوئی دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
امریکہ کے معاملے میں یہ مسئلہ یعنی پٹیشنز والی بات ابھی ایسی بڑے لیول کی نہیں تھی کہ شہ سرخی میں جگہ پاتی، تاہم بات چلی ضرور ہے۔ میرے خیال میں اس کی اہم ترین وجہ کچھ لوگوں یا کچھ گروہوں کی معاشی خود غرضی ہے۔ موجودہ عالمی بحران کے باوجود کچھ ریاستیں ایسی ہیں جن میں معیشت کا پہیہ دیگر کچھ ریاستوں کے مقابلے میں بدستور بہتر چل رہا ہے۔ جیسے کیلیفورنیا کو چین، جاپان وغیرہ کے ساتھ تجارتی گیٹ وے ہونے کی بدولت دوسری ریاستوں سے کافی ایڈوانٹیج ہے۔ تو ایسے میں یہ آوازیں اٹھنا قرین قیاس ہے کہ ہماری ریاست اپنی آمدن دوسری ریاستوں پہ کیوں خرچ ہونے لگے۔ وہی ڈھاکے کی پٹ سن اور اسلام آباد کی سڑکوں والی بات ہے۔
سوال یہ کہ ہو گا کیا۔
جواب یہ کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
لیکن میرا ذاتی تجزیہ وہی کہ اگر لوگوں کا نظام پہ اعتماد قائم ہے تو ایسے ممالک کو کچھ نہیں ہوتا۔
تاہم اگر کہیں اس نظام میں بھی استحصال یا ناانصافی در آئی ہے، جس کا مجھے اندازہ یا ادراک نہیں ہے تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
this was the biggest joke by a newspaper
جواب دیںحذف کریں