کیفی اعظمی نے یہ نظم تقریباً تیس سال پہلے اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کے قتلِ عام کے موقع پر کہی تھی۔ افسوس کہ آج بھی یہی حالات ہیں۔ آج بھی غزہ کے گلی کوچے معصومین کے لہو سے رنگیں ہیں اور یہودی وحشت ہر جانب رقصاں ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ فلسطین کے مسلمانوں کو امن و سکون اور پنجۂ یہود سے نجات عطا فرمائے۔ آمین
مقتلِ فلسطین
اے صبا لوٹ کے کس شہر سے تو آتی ھے
تیری ہر لہر سے بارود کی بو آتی ھے
خوں کہاں بہتا ھے انسان کا پانی کی طرح
جس سے تو روز یہاں کرکے وضو آتی ھے
دھجیاں تو نے نقابوں کی گنی تو ھوں گی
یونہی لوٹ آتی ھے یا کرکے رفو آتی ھے
ایہا الناس فلسطین صدا دیتا ہے
وہ بھی ایسے کہ کلیجوں کو ہلا دیتا ہے
اس کی آواز پہ لبیک کہا جو تم نے
ہر لبِ زخم سے وہ تم کو دعا دیتا ہے
بے خبر اتنے نہیں تم کو یہ معلوم نہ ہو
تخت پر کون یزیدوں کو بٹھا دیتا ہے
شمر مجرم بھی ہے قاتل بھی ہے ملعون بھی ہے
وہ ہے کیا شمر کو خنجر جو تھما دیتا ہے
میری کیوں مانو گے یہ پوچھ لو ہتھیاروں سے
کون اِک شہر کو شمشان بنا دیتا ھے
کب اٹھائے گا خدا حشر خدا ہی جانے
آدمی روز کوئی حشر اٹھا دیتا ھے
کسی ہتھیار سے پوچھو وہ بتا دے گا تمھیں
کون وہ لوگ ہیں دشمن ہیں جو آزادی کے
نام بتلائیں گی بیروت کی زخمی گلیاں
کون درپے ہوا لبنان کی بربادی کے
بند پانی ہوا بیروت کے جانبازوں پر
حربے رائج ہیں ابھی تک وہی جلادی کے
اک اک بوند کو جس وادی میں ترسے تھے حسین
تیل کے چشمے ہیں ناسور اسی وادی کے
بے ضمیری کا ھے یہ عہد خبر ھے کہ نہیں
کس توقع پہ کھلیں لب کسی فریادی کے
اے صبا اب ہو جو بیروت کی گلیوں میں گزر
اور تیرے سامنے آ جائے کوئی تازہ کھنڈر
اس سے کہہ دینا کہ بھارت کا بھی سینہ ہے فگار
ہل گیا کوہِ ہمالہ جو سنی تیری پکار
جتنے کانٹے بھی بچھانا ہو بچھا لے کوئی
تیری راہوں سے جدا ہوں گی نہ راہیں اپنی
غم نہ کر ہاتھ اگر تیرے قلم ہو جائیں
جوڑ دیں گے تیرے بازو میں یہ بانہیں اپنی
۔۔۔۔۔کیفی اعظمی۔
تیری ہر لہر سے بارود کی بو آتی ھے
خوں کہاں بہتا ھے انسان کا پانی کی طرح
جس سے تو روز یہاں کرکے وضو آتی ھے
دھجیاں تو نے نقابوں کی گنی تو ھوں گی
یونہی لوٹ آتی ھے یا کرکے رفو آتی ھے
ایہا الناس فلسطین صدا دیتا ہے
وہ بھی ایسے کہ کلیجوں کو ہلا دیتا ہے
اس کی آواز پہ لبیک کہا جو تم نے
ہر لبِ زخم سے وہ تم کو دعا دیتا ہے
بے خبر اتنے نہیں تم کو یہ معلوم نہ ہو
تخت پر کون یزیدوں کو بٹھا دیتا ہے
شمر مجرم بھی ہے قاتل بھی ہے ملعون بھی ہے
وہ ہے کیا شمر کو خنجر جو تھما دیتا ہے
میری کیوں مانو گے یہ پوچھ لو ہتھیاروں سے
کون اِک شہر کو شمشان بنا دیتا ھے
کب اٹھائے گا خدا حشر خدا ہی جانے
آدمی روز کوئی حشر اٹھا دیتا ھے
کسی ہتھیار سے پوچھو وہ بتا دے گا تمھیں
کون وہ لوگ ہیں دشمن ہیں جو آزادی کے
نام بتلائیں گی بیروت کی زخمی گلیاں
کون درپے ہوا لبنان کی بربادی کے
بند پانی ہوا بیروت کے جانبازوں پر
حربے رائج ہیں ابھی تک وہی جلادی کے
اک اک بوند کو جس وادی میں ترسے تھے حسین
تیل کے چشمے ہیں ناسور اسی وادی کے
بے ضمیری کا ھے یہ عہد خبر ھے کہ نہیں
کس توقع پہ کھلیں لب کسی فریادی کے
اے صبا اب ہو جو بیروت کی گلیوں میں گزر
اور تیرے سامنے آ جائے کوئی تازہ کھنڈر
اس سے کہہ دینا کہ بھارت کا بھی سینہ ہے فگار
ہل گیا کوہِ ہمالہ جو سنی تیری پکار
جتنے کانٹے بھی بچھانا ہو بچھا لے کوئی
تیری راہوں سے جدا ہوں گی نہ راہیں اپنی
غم نہ کر ہاتھ اگر تیرے قلم ہو جائیں
جوڑ دیں گے تیرے بازو میں یہ بانہیں اپنی
۔۔۔۔۔کیفی اعظمی۔
دل پر نقش ہوتے اس کلام کا بہہت بہت شکریہ ۔ اللہ پاک بےبس فلسطینوں کی مدد فرمائے ۔۔
جواب دیںحذف کریں