مائیکل کریکٹن کا یہ ناول سات آٹھ سال قبل کے بیسٹ سیلرز میں سے ایک ہے۔ مائیکل کریکٹن کا نام اس سے پہلے اپنے بہت سے ناولز بشمول جوریزک پارک اور لوسٹ ورلڈ وغیرہ کی بدولت کافی شہرت پا چکا تھا۔
سٹیٹ آف فیئر کا موضوع ماحولیاتی تنظیموں اور گلوبل وارمنگ کے ایشوز پہ ان کی جانب سے ڈیٹا کی ان فیئر مینیپولیشن ہے۔ ویسے یہ ایک عدد تھرلر ناول ہے جو کہ امریکی شہر لاس اینجلز کی سیٹنگ میں لکھا گیا ہے۔
تاہم اس میں مصنف نے بہت بار (یعنی اتنی بار کہ ریپی ٹیشن کی وجہ سے بوریت ہونے لگے) لمبے لمبے ڈائیلاگز میں حوالہ جات کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کیسے ماحولیاتی این جی اوز فنڈ چرنے کے لئے غلط خطرات کا پروپیگنڈہ کرتی پھر رہی ہیں۔ جبکہ گلوبل وارمنگ کا ایشو سرے سے ہے ہی نہیں، نہ ہی قطبین کے گلیشیئر ویسے پگھل رہے ہیں جیسا کہ چرچا ہے اور نہ ہی سمندروں کی سطح ویسی بلند ہو رہی ہے جیسا بتایا جاتا ہے۔ بلکہ آثار اس جانب نشاندہی کرتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کی بجائے شاید ہم ایک نئی آئس ایج کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
اسی میں تھرل والی کہانی کا تڑکا کچھ یوں ہے کہ ماحولیاتی تنظیموں میں کچھ شدت پسند بھی شامل ہو چکے ہیں جن کو انوائرنمنٹل ایکسٹریمسٹ کہا گیا ہے۔ یہ لوگ ماحولیاتی کاز کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک تنظیم نے ایک گلوبل انوائرنمنٹل کانفرنس کے موقع پہ چند بڑے انوائرنمنٹل ڈیزاسٹر پلین کئے جن میں دھماکہ خیز مواد کی مدد سے انٹارکٹیکا میں ایک بڑا آئس برگ توڑنا، ایک نیشنل پارک میں شدید بارش سے درجنوں ہلاکتوں کی کوشش کرنا اور سولومن جزائر کے پاس ایک بڑا سونامی پیدا کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ حسبِ دستور ظاہر ہے کہ ہیروز والی پارٹی عین موقعے پہ ان سب پلینز کو ناکام بنانے میں یا ان کی شدت کم کرنے میں کامیاب تو ہونی ہی تھی۔
ویسے یہ ایک تھرل ناول کے لحاظ سے مجھے زیادہ پسند نہ آتا، لیکن اپنے موضوع کی وجہ سے مجھے پسند آیا، کیونکہ میں بھی گلوبل وارمنگ اور دیگر ماحولیاتی وارننگز کو جھوٹ کا پلندہ گردانتا ہوں۔
ایک بات یاد آ رہی ہے کہ ماحولیاتی ماہرین نے 1980 کی دہائی میں کہا تھا کہ 1998 تک کوئٹہ سے پانی مکمل خشک ہو جائے گا اور یہاں پانی کا ایک قطرہ باقی نہ رہے گا۔ اور اب چودہ سال بعد بھی کوئٹہ بھی وہیں ہے اور پانی بھی وہیں ہے۔
اسی طرح ماہرین کے مطابق ہالینڈ، مالدیپ وغیرہ نے ابھی تک سمندر میں غرق ہو جانا تھا، لیکن ہوئے نہیں خیر سے۔
ہو سکتا ہے کہ میں اس معاملے میں کچھ غلطی پہ ہوں، لیکن میرے خیال سے گلیشیئرز کا پگھلنا اور ٹوٹ ٹوٹ کے سمندر میں گرنا بھی کسی خطرے کی نشانی نہیں ہے۔ کیونکہ دیکھا جائے تو اپنے بے تحاشہ وزن کی وجہ سے گلیشیئر کا نچلا حصہ پگھلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے گلیشیئر ڈاؤن دا ہل کھسکتا بھی رہتا ہے اور اس کا سب سے فرنٹ والا حصہ ٹوٹ کر سمندر یا دریاؤں میں بھی گرتا رہے گا، لیکن ہر سال اسی گلیشیئر کے اوپر والے حصے پہ اتنی برف پھر سے پڑ جاتی ہے کہ یہ اپنا حجم برقرار رکھتا ہے، بلکہ بعض کیسز میں اس کا حجم بڑھتا جاتا ہے۔
ناول میں ماحول کے سلسلے میں گلوبل کانفرنس کے وقت پہ چند انوائرنمنٹل ڈیزاسٹر کا انعقاد پڑھ ہی رہا تھا کہ اسی دن صدر زرداری کے دورے، اس کی وجہ سے انڈو پاک ریلیشن، کشمیر اور سیاچین کے مسائل کا حل وغیرہ کی بات چیت چل رہی تھی کہ اسی اثناء میں گیاری سیکٹر میں برفانی تودے والا سانحہ ہو گیا۔ اگرچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ قدرتی آفت ہی تھی، لیکن دیکھا جائے تو ایسے موقعے پہ اس طرح کے سوانح یا واقعات اپنے ٹائم فریم کی وجہ سے کانفرنس یا مذاکرات کے کاز کی اہمیت کو دو چند کر دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی اس ناول میں بھی پلان بنایا گیا تھا۔
سٹیٹ آف فیئر کا موضوع ماحولیاتی تنظیموں اور گلوبل وارمنگ کے ایشوز پہ ان کی جانب سے ڈیٹا کی ان فیئر مینیپولیشن ہے۔ ویسے یہ ایک عدد تھرلر ناول ہے جو کہ امریکی شہر لاس اینجلز کی سیٹنگ میں لکھا گیا ہے۔
تاہم اس میں مصنف نے بہت بار (یعنی اتنی بار کہ ریپی ٹیشن کی وجہ سے بوریت ہونے لگے) لمبے لمبے ڈائیلاگز میں حوالہ جات کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کیسے ماحولیاتی این جی اوز فنڈ چرنے کے لئے غلط خطرات کا پروپیگنڈہ کرتی پھر رہی ہیں۔ جبکہ گلوبل وارمنگ کا ایشو سرے سے ہے ہی نہیں، نہ ہی قطبین کے گلیشیئر ویسے پگھل رہے ہیں جیسا کہ چرچا ہے اور نہ ہی سمندروں کی سطح ویسی بلند ہو رہی ہے جیسا بتایا جاتا ہے۔ بلکہ آثار اس جانب نشاندہی کرتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کی بجائے شاید ہم ایک نئی آئس ایج کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
اسی میں تھرل والی کہانی کا تڑکا کچھ یوں ہے کہ ماحولیاتی تنظیموں میں کچھ شدت پسند بھی شامل ہو چکے ہیں جن کو انوائرنمنٹل ایکسٹریمسٹ کہا گیا ہے۔ یہ لوگ ماحولیاتی کاز کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک تنظیم نے ایک گلوبل انوائرنمنٹل کانفرنس کے موقع پہ چند بڑے انوائرنمنٹل ڈیزاسٹر پلین کئے جن میں دھماکہ خیز مواد کی مدد سے انٹارکٹیکا میں ایک بڑا آئس برگ توڑنا، ایک نیشنل پارک میں شدید بارش سے درجنوں ہلاکتوں کی کوشش کرنا اور سولومن جزائر کے پاس ایک بڑا سونامی پیدا کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ حسبِ دستور ظاہر ہے کہ ہیروز والی پارٹی عین موقعے پہ ان سب پلینز کو ناکام بنانے میں یا ان کی شدت کم کرنے میں کامیاب تو ہونی ہی تھی۔
ویسے یہ ایک تھرل ناول کے لحاظ سے مجھے زیادہ پسند نہ آتا، لیکن اپنے موضوع کی وجہ سے مجھے پسند آیا، کیونکہ میں بھی گلوبل وارمنگ اور دیگر ماحولیاتی وارننگز کو جھوٹ کا پلندہ گردانتا ہوں۔
ایک بات یاد آ رہی ہے کہ ماحولیاتی ماہرین نے 1980 کی دہائی میں کہا تھا کہ 1998 تک کوئٹہ سے پانی مکمل خشک ہو جائے گا اور یہاں پانی کا ایک قطرہ باقی نہ رہے گا۔ اور اب چودہ سال بعد بھی کوئٹہ بھی وہیں ہے اور پانی بھی وہیں ہے۔
اسی طرح ماہرین کے مطابق ہالینڈ، مالدیپ وغیرہ نے ابھی تک سمندر میں غرق ہو جانا تھا، لیکن ہوئے نہیں خیر سے۔
ہو سکتا ہے کہ میں اس معاملے میں کچھ غلطی پہ ہوں، لیکن میرے خیال سے گلیشیئرز کا پگھلنا اور ٹوٹ ٹوٹ کے سمندر میں گرنا بھی کسی خطرے کی نشانی نہیں ہے۔ کیونکہ دیکھا جائے تو اپنے بے تحاشہ وزن کی وجہ سے گلیشیئر کا نچلا حصہ پگھلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے گلیشیئر ڈاؤن دا ہل کھسکتا بھی رہتا ہے اور اس کا سب سے فرنٹ والا حصہ ٹوٹ کر سمندر یا دریاؤں میں بھی گرتا رہے گا، لیکن ہر سال اسی گلیشیئر کے اوپر والے حصے پہ اتنی برف پھر سے پڑ جاتی ہے کہ یہ اپنا حجم برقرار رکھتا ہے، بلکہ بعض کیسز میں اس کا حجم بڑھتا جاتا ہے۔
ناول میں ماحول کے سلسلے میں گلوبل کانفرنس کے وقت پہ چند انوائرنمنٹل ڈیزاسٹر کا انعقاد پڑھ ہی رہا تھا کہ اسی دن صدر زرداری کے دورے، اس کی وجہ سے انڈو پاک ریلیشن، کشمیر اور سیاچین کے مسائل کا حل وغیرہ کی بات چیت چل رہی تھی کہ اسی اثناء میں گیاری سیکٹر میں برفانی تودے والا سانحہ ہو گیا۔ اگرچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ قدرتی آفت ہی تھی، لیکن دیکھا جائے تو ایسے موقعے پہ اس طرح کے سوانح یا واقعات اپنے ٹائم فریم کی وجہ سے کانفرنس یا مذاکرات کے کاز کی اہمیت کو دو چند کر دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی اس ناول میں بھی پلان بنایا گیا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر