منگل، 15 مئی، 2012

A Thousand Splendid Suns

دی کائٹ رنر سے شہرت پانے والے افغان نژاد ناول نگار خالد حسینی کا یہ دوسرا ناول ہے جو کہ 2007 میں شائع ہوا تھا اور کافی عرصہ بیسٹ سیلر کے ٹاپ ٹین میں رہا۔ دی کائٹ رنر کی طرح یہ بھی افغانستان کی گزشتہ چار دہائیوں کی تاریخ کے بیک گراؤنڈ میں لکھا گیا ناول ہے۔ تاہم کائٹ رنر کافی زیادہ بورنگ اور سلو ٹیمپو قسم کا ناول تھا۔ اے تھاؤزنڈ سپلینڈڈ سنز اس کی نسبت بدرجہا بہتر اور گہرائی میں لکھا گیا ناول ہے جس میں بنیادی موضوع خواتین کی حالتِ زار ہے۔ جن کو نہ بادشاہ کے دور میں امان تھی، نہ کمیونسٹوں کے دور میں، نہ نام نہاد مجاہدین کے دور میں اور نہ طالبان کے دور میں۔
ناول کا نام سترھویں صدی کے فارسی شاعر صائب تبریزی کے کابل کے بارے میں اشعار کے انگلش ترجمے سے لیا گیا ہے۔
Every street of Kabul is enthralling to the eye
Through the bazaars, caravans of Egypt pass
One could not count the moons that shimmer on her roofs
And the thousand splendid suns that hide behind her walls


اگرچہ یہ ناول بھی تھرل یا سسپنس سے بھرپور نہیں ہے، لیکن اس کے بارے میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس کا پڑھنا "ورتھ اِٹ" ہے۔ دی کائٹ رنر تو کافی حد تک نیریشن ہی تھا، لیکن اس ناول کا پلاٹ کافی جاندار ہے۔

بنیادی طور پہ یہ دو خواتین کی کہانی ہے، جن کو اتفاق یا قسمت قریب لے آتی ہے۔ ان پہ اور کابل پہ کیا کچھ بیتتا ہے، یہ خاصی دلگرفتہ داستان ہے، جس کے لئے ناول کا پڑھا جانا اشد ضروری ہے۔

میرے پاس اس کی پی ڈی ایف املا کی اغلاط سے بھرپور ہے۔ شاید کسی او سی آر کی مدد سے سکین کر کے پی ڈی ایف بنائی گئی ہو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر