آج ایک کالم نگار کا کالم پڑھا، جس میں ان حضرت نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ملک و قوم کی حالت اس وقت دگرگوں ہے اور اس کا حل اور علاج یہ ہے کہ سب مل کے توبہ استغفار اور دعائیں کرنا شروع کریں۔
شاید بات عجیب سی لگے لیکن مجھے یہ پڑھ کے کافی ہنسی آئی۔
میرا یہ ماننا ہے کہ اس وقت پاکستان یا مسلمان قوم کی جو حالت ہے، وہ کمزور ہونے کی وجہ سے ہے۔ اور اس کمزوری کو دور کرنے کا میری نظر میں جو رستہ ہے۔ وہ جدید علوم، سائنس، ٹیکنالوجی، سوشل جسٹس سے ہو کے گزرتا ہے۔
لیکن ایک مکتبہ فکر کی نظر میں یہ رستہ صرف اور صرف حج، عمروں، نمازوں، تبلیغوں اور چلے کاٹنے سے ہو کے گزرتا ہے۔ اسکے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں۔
علامہ اقبال کو ہم سب بہت محترم جانتے ہیں اور ان کے خودی کو کر بلند اتنا قسم کے اشعار کو کوٹ بھی خوب خوب کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کے بہت سے فرمودات ایسے ہیں جن پہ غور کیا جانا چاہئے۔
مثلاً
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
یعنی کہ
مذہب قوت کے بغیر صرف ایک نظریہ ہے۔
یہ رشی کے فاقے وہی ہیں، جن کی کہانی مذکورہ کالم نگار صاب سنا رہے ہیں۔
ایک اور واقعہ سنئے۔
بغداد میں جب ہلاکو خان قتل و غارت کر رہا تھا تو ایک جگہ بہت سے علما و مشائخ جمع تھے، جو توبہ استغفار میں مصروف تھے۔ ان کی جانب بڑھا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ہاتھ مت لگائیو۔ ورنہ ہم تمہیں بددعا دیں گے۔
ہلاکو خان بولا کہ اے عمل سے محروم بڈھو! اگر تمہاری دعاؤں اور بددعاؤں میں اتنا ہی اثر ہوتا تو آج تمہاری قوم اس حال میں نہ ہوتی۔
اور اگر اثر ہے بھی تو یہ ذہن میں رکھو کہ طاقت اور بددعا میں پہلی جیت طاقت کی ہو گی۔
سرسید اپنے وقت میں چیخیں مارتا رہا کہ تعلیم ہی ہر مسئلے کا حل ہے، لیکن اس وقت کسی نے اس کی نہ سن کے دی۔ آج بھی اوریا جیسے بے شمار مختلف قسم کے دلاسے دے رہے ہیں۔
ایک بار ایک مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے گیا۔ وہاں مولوی صاحب نے کیا ہی شاندار دعا کرائی۔ فرماتے ہیں یااللہ امریکہ کے جہاز تباہ کر دے۔ ان کے پروں میں سوراخ کر دے۔ ان کو نیست و نابود کر دے۔ (حاضرین کی بآوازِ بلند آمین)۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہمارے لئے کامل نمونہ اور روشن ترین مثال ہے۔ کیا کسی جنگ یا غزوہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے دشمن کے لئے دعا پہ اکتفا کر لیا ہو۔
کیا کسی کو شک ہے کہ آپ کی دعا قبول نہ ہوتی۔ غزوۂ خندق میں صرف دعا کر دیتے تو دشمن نابود ہو جاتا۔ لیکن کیوں آپ نے صحابہ کرام کے ساتھ مل کر صلح مشورہ کیا اور مختلف تجاویز میں سے خندق والی کو بہتر جنگی حکمت عملی جان کے خندق کھدوائی۔ صحابہ کرام کے ساتھ ساتھ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی خندق کھودتے رہے۔
اس کی بجائے توبہ استغفار یا دعا بددعا سے کیوں نہ کام چلا لیا۔
المختصر یہ کہ میرے خیال میں ہر مسئلے کا حل تعلیم، سائنس ٹیکنالوجی، سوشل جسٹس میں ہے۔
توبہ استغفار انفرادی اعمال کے لئے ہے، نہ کہ من حیث القوم مجرمانہ غفلت جیسے گناہ دھونے کے لئے
شاید بات عجیب سی لگے لیکن مجھے یہ پڑھ کے کافی ہنسی آئی۔
میرا یہ ماننا ہے کہ اس وقت پاکستان یا مسلمان قوم کی جو حالت ہے، وہ کمزور ہونے کی وجہ سے ہے۔ اور اس کمزوری کو دور کرنے کا میری نظر میں جو رستہ ہے۔ وہ جدید علوم، سائنس، ٹیکنالوجی، سوشل جسٹس سے ہو کے گزرتا ہے۔
لیکن ایک مکتبہ فکر کی نظر میں یہ رستہ صرف اور صرف حج، عمروں، نمازوں، تبلیغوں اور چلے کاٹنے سے ہو کے گزرتا ہے۔ اسکے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں۔
علامہ اقبال کو ہم سب بہت محترم جانتے ہیں اور ان کے خودی کو کر بلند اتنا قسم کے اشعار کو کوٹ بھی خوب خوب کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کے بہت سے فرمودات ایسے ہیں جن پہ غور کیا جانا چاہئے۔
مثلاً
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
یعنی کہ
مذہب قوت کے بغیر صرف ایک نظریہ ہے۔
یہ رشی کے فاقے وہی ہیں، جن کی کہانی مذکورہ کالم نگار صاب سنا رہے ہیں۔
ایک اور واقعہ سنئے۔
بغداد میں جب ہلاکو خان قتل و غارت کر رہا تھا تو ایک جگہ بہت سے علما و مشائخ جمع تھے، جو توبہ استغفار میں مصروف تھے۔ ان کی جانب بڑھا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ہاتھ مت لگائیو۔ ورنہ ہم تمہیں بددعا دیں گے۔
ہلاکو خان بولا کہ اے عمل سے محروم بڈھو! اگر تمہاری دعاؤں اور بددعاؤں میں اتنا ہی اثر ہوتا تو آج تمہاری قوم اس حال میں نہ ہوتی۔
اور اگر اثر ہے بھی تو یہ ذہن میں رکھو کہ طاقت اور بددعا میں پہلی جیت طاقت کی ہو گی۔
سرسید اپنے وقت میں چیخیں مارتا رہا کہ تعلیم ہی ہر مسئلے کا حل ہے، لیکن اس وقت کسی نے اس کی نہ سن کے دی۔ آج بھی اوریا جیسے بے شمار مختلف قسم کے دلاسے دے رہے ہیں۔
ایک بار ایک مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے گیا۔ وہاں مولوی صاحب نے کیا ہی شاندار دعا کرائی۔ فرماتے ہیں یااللہ امریکہ کے جہاز تباہ کر دے۔ ان کے پروں میں سوراخ کر دے۔ ان کو نیست و نابود کر دے۔ (حاضرین کی بآوازِ بلند آمین)۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہمارے لئے کامل نمونہ اور روشن ترین مثال ہے۔ کیا کسی جنگ یا غزوہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے دشمن کے لئے دعا پہ اکتفا کر لیا ہو۔
کیا کسی کو شک ہے کہ آپ کی دعا قبول نہ ہوتی۔ غزوۂ خندق میں صرف دعا کر دیتے تو دشمن نابود ہو جاتا۔ لیکن کیوں آپ نے صحابہ کرام کے ساتھ مل کر صلح مشورہ کیا اور مختلف تجاویز میں سے خندق والی کو بہتر جنگی حکمت عملی جان کے خندق کھدوائی۔ صحابہ کرام کے ساتھ ساتھ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی خندق کھودتے رہے۔
اس کی بجائے توبہ استغفار یا دعا بددعا سے کیوں نہ کام چلا لیا۔
المختصر یہ کہ میرے خیال میں ہر مسئلے کا حل تعلیم، سائنس ٹیکنالوجی، سوشل جسٹس میں ہے۔
توبہ استغفار انفرادی اعمال کے لئے ہے، نہ کہ من حیث القوم مجرمانہ غفلت جیسے گناہ دھونے کے لئے
زبردست آواہ فکر دوست
جواب دیںحذف کریںیقین جانیئے آپ جیسے آواہ فکر دوست چند ایک مزید پیدا ہوجائیں تو انشاء اللہ مسلمان قوم کا کوئی بال بھی بھیگا نہیں کرسکتا۔۔۔اصل بات عزم کے ساتھ ساتھ عملی جہد کی ہے اس لئے آج مسلمان قوم کو سب سے پہلے جہالت دور کرنی چاہئے۔
بہت شکریہ نعمان بھائی۔
جواب دیںحذف کریںدعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہماری قوم میں زیادہ سے زیادہ سوچنے اور سمجھنے کی توفیق پیدا کرے۔ آمین