منگل، 1 مئی، 2012

بہاؤ ۔ مستنصر حسین تارڑ

بہاؤ ایک بہت ہی شاندار ناول ہے۔ خصوصا" تارڑ صاحب سے ناول نگاری کے بارے میں میری جو توقعات تھیں، ان سے کافی بڑھ کے ثابت ہوا۔
ناول کی سیٹنگ کئی ہزار سال قبل کے موہنجوڈرو کے علاقے کی ہے۔ جس میں بسنے والے انسانوں کی تمام تر گزر اوقات کا ذریعہ دریائے سندھ کے بہاؤ یعنی اس کے پانی کی بدولت تھا۔ اور ناول میں کافی المناک منظرکشی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کیسے دریا کا پانی سوکھتا گیا اور دریا کا بہاؤ بتدریج کم ہوتے ہوتے ختم ہو گیا۔ اور اس کے نتیجے میں اس علاقے میں کیا اثرات مرتب ہوئے۔

ناول میں پنجابی اور وہ بھی اصلی اور ٹھیٹھ پنجابی کے الفاظ کافی استعمال ہوئے ہیں، جو کہ عام استعمال میں نہیں آتے۔ جس قاری کو وہ الفاظ سمجھ نہیں آئیں گے، وہ کتاب کا اصل حظ نہیں اٹھا سکے گا۔

کچھ پنجابی الفاظ جو اس کتاب میں استعمال ہوئے ہیں، ان کا اردو ترجمہ یہ ہے۔

لشکتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چمکتا
آلنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔گھونسلہ
کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کرم۔ یہ زمین کی پیمائش کی ایک اکائی ہے۔ ایک کرو یا ایک کرم دو قدم یا ساڑھے پانچ فٹ کے برابر ہوتا ہے
شتابی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جلدی
پیڈی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سخت، مضبوط
پدھرا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ہموار
مہاندرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چہرہ، چہرے کے نقوش
رتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرخ۔ یہ رت یعنی خون سے ماخوذ ہے
صحنک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مٹی کا بنا پرات نما برتن جس میں عموما" آٹا گوندھا جاتا تھا
کنک ۔ ۔ ۔ ۔ گندم
ڈھیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈھیلہ،،،، مٹی کا ایک ٹھوس ٹکڑا
گیٹوں ۔ ۔ ۔ ۔ باٹ، وزن کرنے والے
ان پانی ۔ ۔ ۔ ۔ روٹی پانی
ترلا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منت سماجت
ٹوپی ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک برتن ہوتا ہے جس کو اناج وغیرہ کے لئے ایک یونٹ کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بڑا برتن ٹوپہ یا پڑوپا کہلاتا ہے اور چھوٹا برتن ٹوپی یا پڑوپی
خورے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید
وتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمین میں نمی آنا جس کے بعد اس کو بیج ڈالنے کے لئے موزوں خیال کیا جاتا ہے
ویہڑے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صحن
رڑھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چٹیل میدان، ہموار میدان
سیک ۔ ۔ ۔ ۔ گرمائش
کنڈ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمر
پنڈے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جسم
دھخا ۔ ۔ ۔ ۔ دہکانا
اوپرا ۔ ۔ ۔ ۔ اجنبی
پھٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زخم، چوٹ
مٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مٹکا
اُکا ۔ ۔ ۔ ۔ بالکل
جھریٹیں ۔ ۔ ۔ ۔ خراشیں
پاسے ۔ ۔ ۔ ۔ سائیڈ، طرف

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر