پیر، 7 مئی، 2012

The Kite Runner

امریکہ میں سیٹلڈ افغان ناول نگار خالد حسینی کا پہلا ناول "دی کائٹ رنر"۔   افغانستان کے گزشتہ تین چار عشروں کے حالات کے بیک ڈراپ میں لکھا گیا یہ ناول پوری دنیا میں بیسٹ سیلرز میں سے ایک رہا ہے اور اس کی ایک کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی ہیں۔ میری معلومات کے مطابق یہ کسی بھی مسلمان مصنف کی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب یا ناول ہے۔

مصنف کافی عرصے سے امریکہ میں ہی مقیم ہے، بلکہ میرا یہ اندازہ ہے کہ ناول کی امریکہ والی سیٹنگ یعنی فریمونٹ، کیلیفورنیا میں سیٹل ہونا وغیرہ، اس کا بیشتر حصہ مصنف کی خود بیتی ہی ہے۔
کہانی کافی سلو ٹیمپو والی لیکن اچھی اور متاثرکن ہے۔ خصوصا" جن لوگوں کے لئے افغانستان یا ہمارے قبائلی علاقوں کی روایات اور کلچر اجنبی رہا ہو، تو ان کو یہ مزید دلچسپ لگا ہو گا۔
تھرل یا سسپنس کے شوقین قارئین کو یہ ناول پڑھ کر یا پڑھتے ہوئے مایوسی اور بوریت ہو گی۔

اور مزید یہ کہ اس کتاب میں ناول نگار نے طالبان اور ان کے طریقۂ کار اور اخلاقیات کے خلاف بھی کافی تڑکا لگایا ہے، اس لئے یہ کتاب یا ناول اہلِ مغرب کو بہتر ہضم ہوا ہو گا۔
میری رائے میں دی کائٹ رنر کے قابلِ قبول یا مقبول ہونے کی اہم ترین وجہ یہی لگتی ہے۔ ورنہ ایز اے ناول یہ کافی ناکام یا پھسڈی قسم کی چیز ہے کہ پلاٹ کافی عمومی سا لگتا ہے۔ تقریبا" ہر واقعے کے بارے میں پہلے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آگے کیا ہو گا۔ میں اس کو ناول سے زیادہ ایپیک یا نیریشن سمجھتا ہوں۔

لیکن اس ناول کے سلسلے میں میرا ایک اور خیال بھی ہے (جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے)، وہ یہ کہ مصنف نے طالبان وغیرہ کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے، وہ حقیقت سے کافی قریب ہے۔ میرے خیال میں اس ضمن میں نالج کے تین لیولز ہیں۔
ایک تو وہ ہیں جو سنی سنائی نما معلومات رکھتے ہیں، ان کے خیال میں طالبان کا اندازِ کار شدید غلط ہے۔
دوسرے وہ ہیں جن کو سنی سنائی سے کچھ زیادہ معلومات ہیں، جغرافیائی قربت یا مذہبی فیکشن کی وجہ سے۔ ان کے خیال میں طالبان بہت بڑے نجات دہندہ اور برگزیدہ وغیرہ ہیں یا تھے۔ سچے مسلمان اور راسخ العقیدہ تھے
جبکہ تیسرا لیول وہ ہے، جن کو فرسٹ ہینڈ قسم کا نالج ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ طالبان کتنے پانی میں ہیں اور کس کھیت کی مولی ہیں۔ ان کے خیالات بھی پہلی قسم والوں جیسے ہی ہیں۔

لیکن خیر یہ میرے ذاتی خیالات ہیں، جن سے یقینا" اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے اور یہ شدید غلط بھی ہو سکتے ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ کہ ناول نگار نے اس میں ایک طالبان لیڈر کو نازی ازم اور کچھ دیگر مغربی افکار سے متاثر بھی دکھایا ہے، جس سے کچھ اہلِ مغرب کو مرچیں بھی لگی ہوں گی۔

اینی ویز پڑھنے کے قابل ناول ہے۔

1 تبصرہ:

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر