میرے سے اگر کوئی یہ کہے کہ ایک لفظ میں انجینئرنگ کو بیان کریں تو میرا جواب بلاتوقف یہ ہو گا "آپٹی مائزیشن"۔
آپٹی مائزیشن کا لفظ آپ کے لئے نیا نہیں ہو گا۔ اس کی آسان ترین مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اگر آپ نے ایک کلو مٹھائی ڈالنے کے لئے ڈبہ بنانا ہو تو ڈبہ اسی سائز ہی کا بنائیں جس میں ایک کلو مٹھائی آ جائے، پانچ کلو کی کیپیسٹی کا ڈبہ بنانا ریسورسز کا ضیاع کہلائے گا۔ اسی طرح ڈبہ اتنا ہی مضبوط ہو کہ اس میں ایک کلو یا کچھ زیادہ وزن ڈالا جائے تو وہ نہ ٹوٹے۔ اس سے زیادہ مضبوطی کی ضرورت نہیں ہے۔
آپٹی مائزیشن کو مزید چند مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سول انجیئرنگ کی مثال لیجئے۔ فرض کریں کہ ایک گھر بنانا ہے اور گھر بنوانے والا یہ چاہتا ہے کہ گھر مضبوط ہو جو کہ زلزلے وغیرہ سے بھی متاثر نہ ہو۔ اب اگر اس گھر کی دیواریں تین تین فٹ موٹی رکھ دی جائیں، اس کی چھت میں عموما'' ایک سینٹی میٹر موٹا سریا استعمال ہوتا ہے لیکن ہم اس میں تین سینٹی میٹر موٹا سریا استعمال کر دیں تو وہ گھر تو کافی مضبوط ہو جائے گا لیکن مالک کی مالی حالت کمزور ہو جائے گی۔
اسی طرح اگر ایک گاڑی کی ڈیزائنگ کرتے ہوئے اس میں ہر جگہ موٹی لوہے کی شیٹ اور مضبوط پارٹس استعمال کر دیئے جائیں تو گاڑی تو بہت مضبوط ہو جائے گی لیکن اس کا وزن کافی زیادہ ہو جائے گا جس کو چلانے کے لئے انجن بڑا لگا لیں گے تو وزن کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا لیکن فیول کا خرچہ بہت بڑھ جائے گا۔
اسی طرح الیکٹریکل انجینئرنگ میں بھی اگر ہر جگہ بہترین کاپر وائر استعمال کریں، پاور سپلائز میں بہترین کوالٹی کے ٹرانسفارمر استعمال کریں، سرکٹس میں ایسی قیمتی چپس استعمال کریں جو کہ لانگ لائف ہوں، جو ہر درجہ حرارت پہ کام کر سکتی ہوں تو آپ کا ڈیزائن کردہ ڈیوائس بہترین پرفارمنس دے گا۔
کمپیوٹر میں ریم زیادہ لگا دی جائے یا اس کی کیشے بڑھا دی جائے تو اس کی سپیڈ بڑھ جاتی ہے۔ تو ایک گیگا بائٹ کی بجائے آٹھ گیگا بائٹ کی ریم لگانا زیادہ بہتر پرفارمنس کا باعث بن سکتا ہے۔
لیکن ایک انجینئر کے نقطۂ نظر سے یہ بالکل بھی درست اپروچ نہیں ہے۔ چاہے مکان ہو یا گاڑی، کمپیوٹر ہو یا کوئی الیکٹرانک سرکٹ، کسی بھی چیز کی ڈیزائننگ کرتے ہوئے یہ دیکھا جانا چاہئے کہ اس میں کس حد تک مضبوطی کی ضرورت ہے۔ اگر ایک مکان کو زلزلہ پروف بنانا ہے تو عموما'' شدید ترین زلزلہ کس حد تک آ سکتا ہے اور کتنی موٹی دیواریں یا کتنا موٹا سریا اس سے حفاظت کر سکتا ہے۔ اسی طرح گاڑی کی مضبوطی اچھی چیز ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ کچھ کلومیٹر چلنے کے بعد مالک کی جیب خالی ہو جائے تو اس کا ڈیزائن ایسا بنایا جائے جو کہ آپٹی مائزڈ ہو یعنی ایک مخصوص حد تک مضبوطی کے ساتھ ساتھ اس میں کم سے کم وزن اور فیول کنزمپشن ہو۔ اسی طرح کمپیوٹر میں اگر ایک گیگا بائٹ ریم سے ہمارا ہر قسم کا کام ہو رہا ہے تو اس سے زیادہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طرح ڈیزائن کرتے ہوئے آپ کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس چیز کا استعمال کیا ہے اور کتنا فریکوئنٹ ہے۔ مثلا'' کمپیوٹر کے کی بورڈ کے بٹن اور عام استعمال والے سائنٹیفک کیلکولیٹر کے بٹن ایک جیسے ہو سکتے سوائے سائز کے فرق کے۔ لیکن کمپیوٹر کا کی بورڈ بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اس لئے اس کے بٹن اور ان کے نیچے لگے سپرنگ زیادہ بہتر میٹیریل کے ڈیزائن کئے جائیں گے۔ جبکہ کیلکولیٹر کے بٹنوں پر وہ تشدد نہیں کیا جاتا جو کہ کمپیوٹر کی بورڈ کے بٹنوں پر کیا جاتا ہے، اس لئے کیلکولیٹر کے بٹنوں کو بھی کی بورڈ کے بٹنوں کے معیار پر بنانا ریسورسز کا ضیاع ہو سکتا ہے۔
اشیاء کی ڈیزائننگ میں ان کے استعمال کو مدِ نظر رکھنے کو ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو ڈیزاننگ میں سیفٹی فیکٹر کو بھی مدِ نظر رکھنا بہت ضروری ہے جیسے ایک تار جس میں سے دو سو بیس وولٹ گزر رہے ہوں تو اس کی انسولیشن اچھی ہونی چاہئے کہ اس کے ناقص ہونے سے کسی کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے لیکن ایک تار جس میں سے تین وولٹ گزر رہے ہوں تو اس کی انسولیشن بہت اچھی نہ بھی ہو تو کام چل سکتا ہے۔ اسی طرح گاڑی کی باڈی اور انجن مضبوط ہونی چاہئے لیکن ہوائی جہاز کی باڈی اور انجن بہت زیادہ مضبوط ہونے چاہئیں کہ گاڑی میں تو چانس لیا جا سکتا ہے جبکہ جہاز میں چانس ہی کوئی نہیں ہے۔
اسی طرح کے اور بے شمار پہلو ہیں جن سے کہ واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ حاصل کلام یہی ہے کہ انجینئر جس جگہ یا جس ادارے میں بھی ہو، اس کا کام ڈیزائن لیول کا ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ ڈیزائن صرف اشیاء، میٹیریل، ڈیوائسز کی حد تک ہی ہو۔ یہ اس ادارے کے پروسیجرز میں بھی ہو سکتا ہے، ہیومن ریسورس مینیجمنٹ یا ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ میں بھی ہوسکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں تو انجینئر کا اس طرح کا کام ہے ہی نہیں یا بہت کم ہے جبکہ نارمل فیکٹریز میں تو ڈپلومہ ہولڈرز بھی کام کر لیتے ہیں بلکہ بہتر کر لیتے ہیں تو پھر اینجینئرز کی کیا ضرورت۔ اس کا جواب دینا اتنا آسان تو نہیں ہے جب تک کہ آپ خود کسی سسٹم میں اِن نہ ہو جائیں تب تک وہاں پر ایک انجینئر کی افادیت ثابت کرنا کافی مشکل ہو گا۔ ہر ادارے میں ایسے مسائل یا ایسے مراحل آتے رہتے ہیں جن کو ایک انجینئر بہتر طریقے سے حل کر سکتا ہے۔
ایک اور بات: ڈگری کی تکمیل کے قریب ہم نے اپنے ایک ٹیچر سے پوچھا کہ سر ہم الیکٹریکل انجینئر تو بن گئے ہیں لیکن اس کا فائدہ ہمیں نظر نہیں آ رہا۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا مطلب۔ ہم نے کہا کہ سر اتنا پڑھ لینے کے باوجود بھی ہم اس قابل بھی نہیں ہیں کہ اپنا ٹیلیویژن کھول کر ٹھیک کر سکیں یا موبائل سیٹ ٹھیک کر سکیں۔ تو انہوں نے بڑے کام کی بات کہی کہ "آپ یہ بات ذہن میں رکھئے کہ ابھی تک آپ نے جو کچھ پڑھا ہے، وہ سب بیسک یا پری ریکویزٹ نالج ہے۔ جس دن آپ یونیورسٹی سے نکلیں گے، اس دن آپ انجینئر بن کر نہیں نکلے بلکہ وہ آپ کا انجینئر بننے کا پہلا دن ہو گا۔ آپ جس ادارے یا کمپنی میں بھی جائیں گے تو وہاں جا کے اپنا کام پہلے سیکھیں گے، پھر کریں گے"
یہ بات بالکل سچ ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ آپ جہاں بھی جاتے ہیں تو پہلے کچھ عرصہ آپ کی ٹریننگ ہوتی ہے جس کے دوران آپ اس سسٹم کو سمجھتے ہیں جس میں آپ نے کام کرنا ہے۔ اس کے بعد آپ کی جاب سٹارٹ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر کمپنیاں تجربے کو کافی اہمیت دیتی ہیں بہ نسبت اچھی گریڈنگ کے۔ وجہ یہی ہے کہ وہ اس وقت کو بچانا چاہتے ہیں جو کہ ایک لائق لیکن ناتجربہ کار انجینئر کو رکھ کر اس کی ٹریننگ میں لگے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر