جمعرات، 10 مئی، 2012

شہاب نامہ پہ کچھ بات چیت

یقینا'' سب ہی اردو پڑھنے والوں نے شہاب نامہ کا نام سنا ہو گا۔ کچھ لوگ اس کتاب کو کافی پسند کرتے ہیں اور کچھ ناپسند کرتے ہیں۔ سب کے پاس اپنے اپنے پوائنٹس ہیں۔ ویسے میں بھی اس کو پسند کرنے والوں میں سے نہیں ہوں لیکن پہلے اس کے کچھ اچھے پوائنٹس لکھتا ہوں اور پھر بعد میں کچھ ایسے پوائنٹس بھی لکھوں گا جو مجھے پسند نہیں آئے۔

اچھے نکات
سب سے اچھا پوائنٹ تو اس کتاب کا ٹائم پیریڈ ہے
یعنی یہ پاکستان بننے سے پہلے سے لیکر ۱۹۷۱ کے قریب قریب تک کے سارے وقت کا احاطہ کرتی ہے۔ 

شہاب صاحب کی اپائنٹمنٹ ایسی رہی ہے کہ وہ کافی اچھے طریقے سے ہماری تاریخ کے اہم واقعات کا مشاہدہ کر سکے۔ 

شہاب صاحب کا اندازِ تحریر بھی کافی اچھا ہے۔ 

ایک بہت بڑا پلس پوائنٹ کشمیر کی تاریخ کو بہت تفصیل سے بیان کرنا ہے۔ جو کہ ڈوگرہ راج کے دور سے ۱۹۴۸ کی جنگ اور اس کے بعد تک کافی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ 

اس کتاب کے واقعات کا تنوع بھی اس کی دلچسپی کو بڑھاتا ہے۔ یعنی کہاں ہماری تاریخ کا بیاں، کہاں جھنگ کے ڈی سی بننے کا احوال، پھر صدارتی محل اور بہت کچھ۔ یہ اس کتاب کا حسن ہے جو کہ اس کو ایک دلچسپ اور بڑی کتاب بناتا ہے۔ 

اسلامی سیکشن۔ اس کےآخر میں شہاب صاحب نے کافی ساری دعائیں اور وظائف بھی بتائے ہیں جو کہ ایک بہت اچھی بات ہے۔


اب کچھ تنقیدی پوائنٹس

ایک تو یہ کہ قدرت اللہ شہاب صاحب نے شروع ہی میں کہا کہ میں دنیا کے بڑے بڑے سربراہان سے مل چکا ہوں لیکن کسی میں وہ شان و شوکت نظر نہ آئی، جو شاید کسی جھنگ کے فٹ پاتھ پہ بیٹھے موچی میں نظر آئی، بالکل درست بات ہے لیکن اس کتاب میں جتنی بھی تصویریں ہیں، وہ شہاب صاحب کی بڑی شخصیات کے ساتھ فوٹوز ہی ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں


شہاب صاحب نے زیادہ وقت ایوب خان کے ساتھ گزارا اور اس کتاب میں اس سارے دور کے احوال میں ایوب خان پہ ہر طرح کی تنقید کی ہے۔ صرف آخری پیراگراف میں چند سطروں میں اس طرح کی بات لکھی ہے کہ ایسا نہیں کہ ان کے دور میں صرف خرابیاں ہی تھیں بلکہ کچھ اچھی باتیں بھی تھیں وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ حقائق شاید بالکل ایسے بھی نہ تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں حقیقی ترقی کا اگر کوئی دور تھا تو وہ ایوب خان کا ۱۹۶۵ سے پہلے کا دور ہی تھا جس کی بنا پہ اس وقت پاکستان کو ایشین ٹائیگر بھی کہا گیا۔


ایک اور بات جو مجھے پڑھتے ہئے محسوس ہوئی کہ شہاب صاحب کی شاید اس وقت کے وزیرِ خزانہ ڈاکٹر شعیب سے کچھ بنتی نہیں تھی۔ اس لئے شہاب صاحب نے ڈاکٹر شعیب پہ تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ حالانکہ شاید ڈاکٹر شعیب اتنے برے پروفیشنل بھی نہ تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں اگر کبھی گروتھ ریٹ ۹ فیصد سے اوپر رہا ہے تو یہ صرف ڈاکٹر شعیب کی وزارت کے دنوں میں ہی تھا۔


ایک اور بات جو مجھے بڑی عجیب سی لگی کہ انیس سو باسٹھ کی چین بھارت جنگ میں پاکستان کی طرف سے انڈیا پر حملہ نہ کرنے پہ ایوب خان حکومت پہ تنقید۔ شہاب صاحب کا خیال تھا کہ پاکستان کو کشمیر پہ قبضہ کر لینا چاہئے تھا۔ یہ تو جرنیلی ٹائپ کی سوچ ہے جس نے ہمیشہ ہمیں مروایا ہے۔ کارگل میں بھی یہی ہوا اور انیس سو پینسٹھ میں بھی یہی ہوا کہ ہم نے سمجھا کہ ہم جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں جبکہ مخالف ملک نہیں اور دونوں دفعہ ہمارا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ تو اس طرح کی بات شہاب ساحب کی جذباتی سوچ تو ہو سکتی ہے لیکن اتنی بڑی کتاب میں اس بات کا تذکرہ عجیب سا لگا۔


کتاب میں بہت سے واقعات صرف زیبِ داستاں کے لئے شامل ہوئے لگے جیسے بملا کماری کی روح وغیرہ

تنقید کے علاوہ ایک اور بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ شہاب نامہ میں تقریبا'' انیس سو اکہتر کے کچھ بعد تک کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد اگر تہمینہ درانی کھر کی کتاب مینڈا سائیں یعنی مائی فیوڈل لارڈ پڑھی جائے تو خاصی اچھی سیکوینس بنتی ہے کیونکہ شہاب نامہ جس دور پہ ختم ہوتا ہے، مائی فیوڈل لارڈ تقریبا'' اسی دور کی تاریخ سے شروع ہوتی ہے اور نوے کی دہائی کے اوائل تک کی داستان بڑے اچھے طریقے سے بیان کرتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر