ہمارے مورخ بتاتے ہیں کہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں فتاوٰی عالمگیری پہ کام ہوا تھا، اور یہ خود ٹوپیاں سی کر گزر بسر کرتا تھا۔ اس کی وجہ سے میں بھی اس کا احترام کرتا ہوں،، یا یوں کہہ لیں کہ کرتا تھا۔
لیکن آنکھ کھول کے غور فرمایا جائے تو ایک بات جو مجھے سمجھ میں آتی ہے کہ کسی بھی حاکم کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ اس کے بعد کی تاریخ کے واقعات سے خود بخود ہو جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک مضمون نما تحریر پڑھی تھی کہ اورنگزیب نے اپنے معلم سے کچھ یوں شکوہ کیا کہ تو نے مجھے الف بے پڑھا دی لیکن دنیاوی علوم نہ سکھائے۔ تو نے مجھے فلاں فلاں سکھا دیا، لیکن فلاں فلاں نہ سکھایا۔
اس وقت بھی ذہن میں یہی خیال آیا کہ اگر اورنگزیب کو یہ بات سمجھ آ گئی تھی تو اس نے خود اس پہ عمل کیوں نہ کیا۔ اس کو اقتدار کے پچاس سال ملے بس۔ ذرا ادراک کیجئے تھوڑا سا وقت نہیں، بلکہ پچاس سال یعنی نصف صدی۔ اور اس نے یہ نصف صدی ضائع کر دی۔ بس ٹوپیاں سیتا رہا اور فتوے لکھواتا رہا۔
یہ سترھویں صدی کے اخیر کا دور تھا۔ یہ دور یورپ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بھرپور آغاز کا دور کہلاتا ہے۔ سولہویں صدی کو اس کے ساتھ ملایا جائے تو اسی کو رینائسنس (یعنی نشاۃ ثانیہ) کا دور بھی کہا جاتا ہے۔نیوٹن کے قوانین بھی اس وقت تک آ چکے تھے اور گلیلیو کے تجربات بھی۔ پاسکل لاء بھی آ چکا تھا اور بوائلز لاء بھی۔ ھگنز کی میتھیمیٹکس اور آپٹکس کے لاءز بھی آ چکے تھے۔ جبکہ یہاں بس لالالا لالا لا کی لے پہ زور تھا بس۔
تو اورنگزیب صاحب نے خود کچھ نہیں کرنا یا کروانا تھا تو دوسری اقوام سے ہی کچھ سیکھ جان لیا ہوتا۔
لیکن مجال ہے جو ذرا بھی زحمت فرمائی ہو۔ یہ لوگ دراصل ہمارے موجودہ فیوڈل نظام کے مافک تھے۔ یعنی لوگوں کو اپنے سمیت زیادہ سے زیادہ جاہل رکھنا ہی سودمند ہے۔ تھوڑی بہت توجہ موسیقی اور عمارتیں بنانے پہ دے لو۔ باقی مورخ کو کُوٹ پیٹ کے تاریخ میں صالح، عادل، منصف، درویش وغیرہ تو بن ہی جانا ہے ۔
تو اسی سب مجرمانہ غفلت کا نتیجہ تھا کہ عالمگیر کے دور کے فوراً بعد مغلیہ سلطنت دھڑام سے آ گری۔ کچھ لوگ اس کو عالمگیر کا کمال کہہ سکتے ہیں کہ دیکھیں جب تک وہ رہا تو دھڑام سے نہ گری۔ لیکن میں اس کو کوتاہ بینی کہوں گا۔ مثل مشہور ہے کہ افراد کی غلطیاں وہ خود بھگتتے ہیں، لیکن حکمرانوں کی غلطیاں قوم بھگتتی ہے اور وہ بھی نسلوں تک۔
بدقسمتی سے ایسے لوگوں کو ہم اپنے ہیرو گردانتے ہیں۔ جبکہ یہ بونے اور بالشتئے تھے۔ اپنی ناک کے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے بھی محروم تھے۔ یہ دراصل ہماری تاریخ کے ولن ہیں اور ان کو اسی تناظر میں جاننا چاہئے۔
تاریخ صرف اس لئے ہوتی ہے کہ اس سے سبق حاصل کیا جائے، عبرت پکڑی جائے۔ ۔ ۔ ۔ نہ کہ اس کے ناخوشگوار حصوں کا رد کیا جائے اور خوشگوار حصوں کا بھجن گایا جائے۔
ایک اور بات کا بھی ذکر کرتا چلوں، یعنی اورنگزیب کے اپنے باپ اور بھائیوں کو مروانے والی۔ تو اس سلسلے میں مزید عرض یہ ہے کہ بات یہیں تک محدود نہیں ہے۔ باپ کو قید کرنا یا بھائیوں کو قتل کروانا تو کوئی کارنامہ ہی نہیں۔ اصل سیاہ کاری کچھ یوں سامنے آتی ہے کہ اس نے اپنے بھائی دارا شکوہ کو مروانے کے لئے ایک عدد نظریہ ضرورت نما فتوے کا بھی انتطام کروایا۔ کچھ اس سے ملتا جلتا
کہ دارا شکوہ ریاست کے لئے خطرہ ہے اور یوں اس کا زندہ رہنا غیرقانونی، غیر آئینی (اور شاید غیر شرعی) ہے۔
عالمگیرنامہ (انگریزی ترجمے) میں کچھ یوں بیان ہے۔
The pillars of Faith apprehended disturbances from Dara Shikoh's life. The Emperor, therefore, out of necessity to protect the Holy law, and also for reasons of state, considered it unlawful to allow him to remain alive
ان سب باتوں سے کچھ کچھ متعلق اور کچھ کچھ غیرمتعلق بات بھی شیئر کرتا چلوں۔
کچھ ہی عرصہ قبل برطانوی شہزادے کی کیٹ مڈلٹن سے شادی ہوئی۔ ٹی وی پہ دکھائی جانے والی تقریب کو دیکھ کر میری ایک کزن نے پوچھا کہ یہ سب لوگ یعنی عوام اتنے خوش کیوں ہیں اور اتنی عالیشان (یعنی فضول خرچی والی) تقریب کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کر رہے۔
اس پہ میرا جواب یہ تھا کہ اس سب کے پیچھے کم از کم ایک ہزار سال کی تاریخ ہے بابا۔
یہ شاہی خاندان ہی تھا جس کے دور میں ان کی قوم نے اپنا عروج دیکھا۔
اسی شاہی خاندان نے صدیوں قبل آکسفورڈ جیسے تعلیمی ادارے بنوائے۔
انہی کے دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کا رینائسنس اور صنعتی انقلاب والا دور آیا۔ ان کو ذرا بھی یہ خوف محسوس نہیں ہوا کہ ان سب سے عوام میں خوشحالی اور شعور آ جائے گا۔
اسی شاہی خاندان نے عوام کے شانہ بشانہ اپنے وقتوں کی سپرپاورز کے ساتھ بڑی بڑی جنگیں لڑی ہیں۔
اور جب وقت کی ضرورت کو محسوس کیا تو جمہوریت کو رائج کر کے اپنے اختیارات اور عمل دخل کو محدود کر لیا۔
دوسرے الفاظ میں انہوں نے خالی خولی لٹ ہی نہیں مچائی، بلکہ اپنی قوم کو بامِ عروج پہ بھی پہنچایا ہے۔
تو عوام کیوں نہ ان کی شادی پہ بھنگڑے ڈالیں۔
ان کی خوشیوں میں کیوں شریک نہ ہوں۔
لیکن آنکھ کھول کے غور فرمایا جائے تو ایک بات جو مجھے سمجھ میں آتی ہے کہ کسی بھی حاکم کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ اس کے بعد کی تاریخ کے واقعات سے خود بخود ہو جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک مضمون نما تحریر پڑھی تھی کہ اورنگزیب نے اپنے معلم سے کچھ یوں شکوہ کیا کہ تو نے مجھے الف بے پڑھا دی لیکن دنیاوی علوم نہ سکھائے۔ تو نے مجھے فلاں فلاں سکھا دیا، لیکن فلاں فلاں نہ سکھایا۔
اس وقت بھی ذہن میں یہی خیال آیا کہ اگر اورنگزیب کو یہ بات سمجھ آ گئی تھی تو اس نے خود اس پہ عمل کیوں نہ کیا۔ اس کو اقتدار کے پچاس سال ملے بس۔ ذرا ادراک کیجئے تھوڑا سا وقت نہیں، بلکہ پچاس سال یعنی نصف صدی۔ اور اس نے یہ نصف صدی ضائع کر دی۔ بس ٹوپیاں سیتا رہا اور فتوے لکھواتا رہا۔
یہ سترھویں صدی کے اخیر کا دور تھا۔ یہ دور یورپ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بھرپور آغاز کا دور کہلاتا ہے۔ سولہویں صدی کو اس کے ساتھ ملایا جائے تو اسی کو رینائسنس (یعنی نشاۃ ثانیہ) کا دور بھی کہا جاتا ہے۔نیوٹن کے قوانین بھی اس وقت تک آ چکے تھے اور گلیلیو کے تجربات بھی۔ پاسکل لاء بھی آ چکا تھا اور بوائلز لاء بھی۔ ھگنز کی میتھیمیٹکس اور آپٹکس کے لاءز بھی آ چکے تھے۔ جبکہ یہاں بس لالالا لالا لا کی لے پہ زور تھا بس۔
تو اورنگزیب صاحب نے خود کچھ نہیں کرنا یا کروانا تھا تو دوسری اقوام سے ہی کچھ سیکھ جان لیا ہوتا۔
لیکن مجال ہے جو ذرا بھی زحمت فرمائی ہو۔ یہ لوگ دراصل ہمارے موجودہ فیوڈل نظام کے مافک تھے۔ یعنی لوگوں کو اپنے سمیت زیادہ سے زیادہ جاہل رکھنا ہی سودمند ہے۔ تھوڑی بہت توجہ موسیقی اور عمارتیں بنانے پہ دے لو۔ باقی مورخ کو کُوٹ پیٹ کے تاریخ میں صالح، عادل، منصف، درویش وغیرہ تو بن ہی جانا ہے ۔
تو اسی سب مجرمانہ غفلت کا نتیجہ تھا کہ عالمگیر کے دور کے فوراً بعد مغلیہ سلطنت دھڑام سے آ گری۔ کچھ لوگ اس کو عالمگیر کا کمال کہہ سکتے ہیں کہ دیکھیں جب تک وہ رہا تو دھڑام سے نہ گری۔ لیکن میں اس کو کوتاہ بینی کہوں گا۔ مثل مشہور ہے کہ افراد کی غلطیاں وہ خود بھگتتے ہیں، لیکن حکمرانوں کی غلطیاں قوم بھگتتی ہے اور وہ بھی نسلوں تک۔
بدقسمتی سے ایسے لوگوں کو ہم اپنے ہیرو گردانتے ہیں۔ جبکہ یہ بونے اور بالشتئے تھے۔ اپنی ناک کے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے بھی محروم تھے۔ یہ دراصل ہماری تاریخ کے ولن ہیں اور ان کو اسی تناظر میں جاننا چاہئے۔
تاریخ صرف اس لئے ہوتی ہے کہ اس سے سبق حاصل کیا جائے، عبرت پکڑی جائے۔ ۔ ۔ ۔ نہ کہ اس کے ناخوشگوار حصوں کا رد کیا جائے اور خوشگوار حصوں کا بھجن گایا جائے۔
ایک اور بات کا بھی ذکر کرتا چلوں، یعنی اورنگزیب کے اپنے باپ اور بھائیوں کو مروانے والی۔ تو اس سلسلے میں مزید عرض یہ ہے کہ بات یہیں تک محدود نہیں ہے۔ باپ کو قید کرنا یا بھائیوں کو قتل کروانا تو کوئی کارنامہ ہی نہیں۔ اصل سیاہ کاری کچھ یوں سامنے آتی ہے کہ اس نے اپنے بھائی دارا شکوہ کو مروانے کے لئے ایک عدد نظریہ ضرورت نما فتوے کا بھی انتطام کروایا۔ کچھ اس سے ملتا جلتا
کہ دارا شکوہ ریاست کے لئے خطرہ ہے اور یوں اس کا زندہ رہنا غیرقانونی، غیر آئینی (اور شاید غیر شرعی) ہے۔
عالمگیرنامہ (انگریزی ترجمے) میں کچھ یوں بیان ہے۔
The pillars of Faith apprehended disturbances from Dara Shikoh's life. The Emperor, therefore, out of necessity to protect the Holy law, and also for reasons of state, considered it unlawful to allow him to remain alive
ان سب باتوں سے کچھ کچھ متعلق اور کچھ کچھ غیرمتعلق بات بھی شیئر کرتا چلوں۔
کچھ ہی عرصہ قبل برطانوی شہزادے کی کیٹ مڈلٹن سے شادی ہوئی۔ ٹی وی پہ دکھائی جانے والی تقریب کو دیکھ کر میری ایک کزن نے پوچھا کہ یہ سب لوگ یعنی عوام اتنے خوش کیوں ہیں اور اتنی عالیشان (یعنی فضول خرچی والی) تقریب کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کر رہے۔
اس پہ میرا جواب یہ تھا کہ اس سب کے پیچھے کم از کم ایک ہزار سال کی تاریخ ہے بابا۔
یہ شاہی خاندان ہی تھا جس کے دور میں ان کی قوم نے اپنا عروج دیکھا۔
اسی شاہی خاندان نے صدیوں قبل آکسفورڈ جیسے تعلیمی ادارے بنوائے۔
انہی کے دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کا رینائسنس اور صنعتی انقلاب والا دور آیا۔ ان کو ذرا بھی یہ خوف محسوس نہیں ہوا کہ ان سب سے عوام میں خوشحالی اور شعور آ جائے گا۔
اسی شاہی خاندان نے عوام کے شانہ بشانہ اپنے وقتوں کی سپرپاورز کے ساتھ بڑی بڑی جنگیں لڑی ہیں۔
اور جب وقت کی ضرورت کو محسوس کیا تو جمہوریت کو رائج کر کے اپنے اختیارات اور عمل دخل کو محدود کر لیا۔
دوسرے الفاظ میں انہوں نے خالی خولی لٹ ہی نہیں مچائی، بلکہ اپنی قوم کو بامِ عروج پہ بھی پہنچایا ہے۔
تو عوام کیوں نہ ان کی شادی پہ بھنگڑے ڈالیں۔
ان کی خوشیوں میں کیوں شریک نہ ہوں۔
بہت عمدہ جناب۔۔۔۔۔ تاریخ پر جو مہارت جناب کی دیکھی ہے وہ کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملی۔
جواب دیںحذف کریںتاریخ مٹاو غلام بناو ۔ یه مكار فرنگی قوموں اور ان كے هم نواوٗں كی راجنیتی بنیادی اصول هے ،، اسلئے تاریخ كو كسی بهی قوم كے بنیادی فلفه اور نفسیات سے الگ كركے مطالعه كرنا انتهائی حماقت هے ۔ ۔ جتنے بهی اعتراضات ان اسلامی اقدار كے حامل بادشاهوں پر كئے گئے هیں تقریبا سب اسی شجرۃ خبیچۃ مسموم پهل هیں ۔
جواب دیںحذف کریں