پچھلے دنوں تل ابیب یونیورسٹی اسرائیل نے شعیہ سنی تفریق
پہ ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں پوری دنیا سے شعیہ سنی اکابرین
شریک ہوئے۔ گمان یہی ہے کہ شرکائے کانفرنس نے یہودیوں کی باتیں غورسے سنی
ہوں گی کیونکہ اپنے ممالک میں یہ حضرات ایک دوسرے کی کم ہی سنتے ہیں جس کی
بظاہر وجہ روزگارکا متاثر ہونا ہے۔ یقیناً یہودیوں نے شیعہ
سنی اختلافات ختم کروانے کی کوشش کی ہو گی لیکن چونکہ اسرائیل کو سب سے بڑا
خطرہ ایران سے ہے
، لہذا گمان یہی ہے کہ اسرائیل نے شعیہ حضرات کو یہ بھی باَور کروانے کی کوشش کی ہوکہ واقعہ کربلا سے ہمار ا کوئی تعلق نہیں، جنگ جمل اور جنگ صفین سے بھی ہمار ا کوئی لینا دینا نہیں تھا اور وہ نیزے جن پہ اہل بیت کے سرلٹکائے گئے، وہ بھی میڈ اِن اسرائیل نہیں تھے ۔ مزید یہ کہ موساد بھی اس وقت تک قائم نہیں ہوئی تھی۔
، لہذا گمان یہی ہے کہ اسرائیل نے شعیہ حضرات کو یہ بھی باَور کروانے کی کوشش کی ہوکہ واقعہ کربلا سے ہمار ا کوئی تعلق نہیں، جنگ جمل اور جنگ صفین سے بھی ہمار ا کوئی لینا دینا نہیں تھا اور وہ نیزے جن پہ اہل بیت کے سرلٹکائے گئے، وہ بھی میڈ اِن اسرائیل نہیں تھے ۔ مزید یہ کہ موساد بھی اس وقت تک قائم نہیں ہوئی تھی۔
دوسری جانب ہمارے ہاں دو بڑے مکاتبِ فکر ہیں جنہیں عرف عام میں دیوبندی اور بریلوی کہا جاتا ہے۔ دونوں مسالک میں خاصے فقہی اختلافات موجود ہیں جو اکثر تشدد کی صورت میں سامنے آ تے ہیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت جو ان دونوں مکاتب فکر کی جنم بھومی ہے سے بھی درخواست کی جائے کہ وہ بھی اسی نوع کی ایک کانفرنس منعقد کر ڈالے جس میں دونوں طرف کے سرکردہ افراد کو بتایا جائے کہ مزاروں کو دھماکوں سے اڑانے کی بھارت میں کوئی روایت نہیں رہی اور بھارتی مشائخ کو یہ دھڑکا کبھی نہیں ہوا کہ کب فرزندان توحید اپنا "فریضہ" سرانجام دے ڈالیں۔ مزید یہ کہ جب آپ کے بڑے ان مسالک کی بنیاد رکھ رہے تھے، اس وقت نہ تو بھارت آزاد ہوا تھا اور نہ ہی "را" موجود تھی کہ وہ کوئی سازش کرسکتے۔
لہذا ہمیں چائیے کہ مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے اسرائیل اور بھارت کی متوقع کاوشوں کی تعریف کریں۔ کیونکہ یہ کارخیر سرانجام دینے میں ہم خود بری طرح ناکام ہو چکے ہیں اور یہ مسلکی تفریق بجائے کم ہونے کے دن بدن بڑھتی جارہی ہے ۔ گمان غالب ہے کہ ان کانفرنسوں کے نتیجے میں امہ کے تعلقات یہودو ہنود سے تو بہتر ہوجائیں لیکن امکان ا س بات کا بھی ہے کہ نصارٰی کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے چنانچہ بہتر ہے کہ حفظ ماتقدم کے طورپہ نصارٰی بھی ایک کانفرنس منعقد کرڈالیں جس میں حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، حیاتی اور مماتی حضرات کو بھی ایک چھت کے نیچے اکٹھا کریں اور ان کو بھی باہمی اختلافات حل کرنے کی ترغیب دیں۔
جو کام مسلم امہ سرانجام نہیں دے سکی، ہوسکتا ہے کہ وہ نیک کام یہودو ہنود ونصارٰی کی کوششوں سے سرانجام پا جائے اور مسلم دنیا میں امن قائم ہو جائے ۔ کالم از وسیم الطاف سے اقتباس
سپلینڈڈ جی۔۔ اتفاقِ باہمی تو اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ آج کل دوسرے :فرقہ کی بجائے دوسر مذہب کی کی بات کی جا رہی ہے۔ آج کل عوام میں اس طرح بات کی جاتی ہے۔ فلاں بات پہ تمام مذاہب کے علما کا اتفاق ہے۔۔۔
جواب دیںحذف کریںآن آ کملیٹلی ڈفرنٹ نوٹ۔۔ ابھی ایک مینجمنٹ کے بندے نے کنفرم کیا ہے کہ کھوسکی شوگر مل دیوان گروپ نے زرد آری صاحب کو گفٹ کر دی تھی۔ اس کے بعد جب باقی پہ رال ٹپکنے لگی اور ہر جگہ سے نصف کا مطالبہ ہو تو ان لوگ نے فیکٹریاں بند کریں اور باہر جا کر بیٹھ گئے۔۔ آپ کو کچھ اس قسنم کی خبر ملی؟
یا اللہ خیر
جواب دیںحذف کریںبہت خوب تنقیدی مضمون شیئر کیا ،شکریہ
asslamu alaikum!....
جواب دیںحذف کریںnai blog entry kab aa rahi hai g????
ab to chilla bhi ho chuka!!!
استاد جی۔ بہت دیر ہوئی شریفوں یا سونامی پاشا پہ کچھ نہیں کہا گیا۔
جواب دیںحذف کریں