تلخ و شیریں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تلخ و شیریں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 2 نومبر، 2016

اب روز گوشت پکے گا!

بحیثیتِ قوم ہمارے گوں ناگوں مسائل میں ایک مسئلہ ہمارے اس ذہنی رجحان کا بھی ہے کہ ہر چیز کو شارٹ کٹ میں تلاش کرتے ہیں۔ ہر مسئلے کا حل کسی معجزے میں دیکھتے ہیں۔ بس کچھ ایسا ہو جائے تو پھر تمام مسائل سے مکمل نجات۔

بہت پہلے پی ٹی وی پہ ایک ڈرامہ آیا کرتا تھا جس میں ایک کیریکٹر کا تکیہ کلام تھا کہ "اب روز گوشت پکے گا"۔ جس کا استعمال وہ ہر چھوٹی بڑی چیز کے ساتھ نتھی کر کے کرتا تھا۔ جیسے میری نوکری لگ جائے پھر روز گوشت پکے گا۔ ایک بار ہماری گلی پکی ہو جائے پھر روز گوشت پکے گا۔ بیٹا میٹرک پاس کر لے پھر روز گوشت پکے گا۔ پاکستان میچ جیت جائے پھر روز گوشت پکے گا۔ وغیرہ وغیرہ

مجھے لگتا ہے کہ من حیث القوم ہمارا حال بھی تقریباً اس کیریکٹر جیسا ہو چکا ہے۔ یار لوگوں کو تمام تر ملکی و قومی سطح کے مسائل کا حل کسی ایک وقوعے، کسی ایک معجزے، کسی ایک آرزو کی تکمیل میں دکھائی دیتا ہے۔

پیر، 9 جون، 2014

کراچی ایئرپورٹ پہ دہشت گردی اور ماضی کے واقعات

ویسے تو پاکستان میں مکمل امن شاید ہی کبھی موجود رہا ہو، لیکن ماضی قریب میں فاٹا آپریشن شروع کئے جانے کے بعد سے اس ملک نے دہشت گردی کے ایسے ایسے واقعات دیکھے ہیں کہ اب محسوس ہوتا ہے کہ اس سے پہلے تو پاکستان بہت ہی پرسکون اور امن کا گہوارا ہوا کرتا تھا۔

لیکن فاٹا آپریشن کے بعد بہادر کمانڈو المعروف مشرف صاحب نے جب لال مسجد کر دیا تو اس کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے ایسے ایسے واقعات ہوئے کہ ہالی ووڈ کی ڈائی ہارڈ سیریز جیسی فلموں کو بھی مات کر دیا۔

جمعہ، 23 مئی، 2014

زندہ ہیروز کی تلاش

چند ماہ قبل کی بات ہے۔ کسی ٹی وی چینل پہ کسی شاعر یا ادیب کو ایوارڈ دینے کی خبر چلی تو میرے ایک کزن کا پہلا سوال یہ تھا کہ ہائیں!!! کیا یہ بھی فوت ہو گیا ہے؟
اس ایک فقرے میں گویا ہمارے من حیث القوم مزاج اور رویوں کی داستان بیان کر دی گئی۔ میں بہت عرصے سے اس چیز کو دیکھ رہا ہوں کہ کسی بھی شاعر ادیب، فنکار یا ماہرِ فنونِ لطیفہ کے لئے ہیرو بننے (یا ایوارڈ پانے) کی سب سے بڑی کوالیفیکیشن

جمعرات، 14 مارچ، 2013

دعوتِ فکر

پچھلے دنوں تل ابیب یونیورسٹی اسرائیل نے شعیہ سنی تفریق پہ ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں پوری دنیا سے شعیہ سنی اکابرین شریک ہوئے۔ گمان یہی ہے کہ شرکائے کانفرنس نے یہودیوں کی باتیں غورسے سنی ہوں گی کیونکہ اپنے ممالک میں یہ حضرات ایک دوسرے کی کم ہی سنتے ہیں جس کی بظاہر وجہ روزگارکا متاثر ہونا ہے۔ یقیناً یہودیوں نے شیعہ سنی اختلافات ختم کروانے کی کوشش کی ہو گی لیکن چونکہ اسرائیل کو سب سے بڑا خطرہ ایران سے ہے

جمعہ، 8 مارچ، 2013

کرائے کی ترقی اور سہانے خواب

ویسے تو جب سے پاکستان بنا ہے، سہانے خوابوں نے ہماری قوم کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ہر کوئی ایسے ایسے خواب دیکھے جا رہا ہے کہ جیسے اگلے چند سالوں میں کراچی اور لاہور ترقی میں نیو یارک اور شکاگو کو پیچھے چھوڑنے والے ہیں، کوئی دن آتا ہے کہ امریکہ و یورپ ہمارے سامنے ہاتھ پھیلا کے امداد کی دہائی دینے والے ہوں گے۔

خواب دیکھنا اچھی بات ہے، لیکں صرف خواب دیکھنا بہت بری بات ہے۔
کیسی مضحکہ خیز بات ہے خواب دیکھنا دبئی، نیویارک بننے کے

بدھ، 23 جنوری، 2013

تاریخ اور جھوٹ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بستی میں دو بھائی رہتے تھے۔ والدین کی وفات کے بعد دونوں بھائیوں نے کچھ بات چیت کے بعد جائیداد کو تقسیم کر لیا اور الگ الگ ہنسی خوشی رہنے لگے۔ کئی دہائیوں کے بعد ان کے بچے والدین سے سوال کرتے کہ آپ دونوں الگ کیوں ہوئے۔ اس پہ ان کو جواب ملتا کہ ہم نے سوچا کہ اکٹھے رہیں گے تو جھگڑے بڑھیں گے، خواہ مخواہ کی چخ چخ ہو گی۔ تو بہتر ہے کہ الگ الگ رہ لیں۔

دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ

ہفتہ، 22 دسمبر، 2012

دس سال بعد کی نیوز ہیڈ لائنز

دس سال بعد کی نیوز ہیڈ لائنز

۔۔۔۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماؤں نے اجلاس کے بعد اعلان کیا ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو کی قاتلوں کا پتا چلا لیا گیا ہے اور اس سال ان کی برسی پہ ان کا اعلان کر دیا جائے گا۔ ایک رپورٹر کے اس سوال پر کہ یہی بات گزشتہ پندرہ سالوں سے ہر سال تواتر سے کہی جا رہی ہے لیکن نتیجہ کچھ نہیں، جواب دیا گیا کہ شٹ اپ یو ایڈیٹ۔

اتوار، 13 مئی، 2012

اورنگزیب عالمگیر ۔ ہیرو یا ولن؟؟

ہمارے مورخ بتاتے ہیں کہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں فتاوٰی عالمگیری پہ کام ہوا تھا، اور یہ خود ٹوپیاں سی کر گزر بسر کرتا تھا۔ اس کی وجہ سے میں بھی اس کا احترام کرتا ہوں،، یا یوں کہہ لیں کہ کرتا تھا۔

لیکن آنکھ کھول کے غور فرمایا جائے تو ایک بات جو مجھے سمجھ میں آتی ہے کہ کسی بھی حاکم کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ اس کے بعد کی تاریخ کے واقعات سے خود بخود ہو جاتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ایک مضمون نما تحریر پڑھی تھی کہ اورنگزیب نے اپنے معلم سے کچھ یوں شکوہ کیا کہ تو نے مجھے الف بے پڑھا دی لیکن دنیاوی علوم نہ سکھائے۔ تو نے مجھے فلاں فلاں سکھا دیا، لیکن فلاں فلاں نہ سکھایا۔

صرف توبہ استغفار؟؟؟

 آج ایک کالم نگار کا کالم پڑھا، جس میں ان حضرت نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ملک و قوم کی حالت اس وقت دگرگوں ہے اور اس کا حل اور علاج یہ ہے کہ سب مل کے توبہ استغفار اور دعائیں کرنا شروع کریں۔
شاید بات عجیب سی لگے لیکن مجھے یہ پڑھ کے کافی ہنسی آئی۔

میرا یہ ماننا ہے کہ اس وقت پاکستان یا مسلمان قوم کی جو حالت ہے، وہ کمزور ہونے کی وجہ سے ہے۔ اور اس کمزوری کو دور کرنے کا میری نظر میں جو رستہ ہے۔ وہ جدید علوم، سائنس، ٹیکنالوجی، سوشل جسٹس سے ہو کے گزرتا ہے۔

بدھ، 25 اپریل، 2012

طاؤس و رباب اول

  آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی ذیل میں دی گئی تصویر دیکھ کے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب حکمرانوں کے لئے طاؤس و رباب اول ہو جائے، سائنس و ٹیکنالوجی کی بجائے شاعری اور موسیقی کو فوقیت ہو تو پھر کیا انجام ہو سکتا ہے۔