پسندیدہ اقتباسات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پسندیدہ اقتباسات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 25 ستمبر، 2016

جنگ

جنگ کوئی شطرنج کی بازی نہیں ہوتی۔ کرکٹ نہیں جس میں فاتح کو ورلڈکپ مل جائے۔ ٹینس کا میچ نہیں جس میں ومبلڈن کا چیمپیئن وہ کہلائے جو اپنے حریف کو ہرا دے۔ جنگ صرف جنگ ہوتی ہے۔ جنگ صرف تباہی اور خرابی لاتی ہے۔ اس کے لئے بھی جو سمجھتا ہے کہ وہ جیت گیا اور ہارنے والے کے لئے بھی۔ جنگ نفرت سے پھوٹنے والا ببول ہے جس میں صرف کانٹے نکلتے ہیں۔ یا ایھاالابصار۔ اے آنکھیں رکھنے والو! اور عقل رکھنے والو۔ تمہارے لئے اس میں سیکھنے کو اور سمجھنے کو بہت کچھ ہے۔ پھر تم کیوں امن اور محبت کے بیج نہیں بوتے۔ کیوں دلوں کی زمین کو ہوس سے پاک کر کے قناعت سے آبیاری نہیں کرتے کہ جب پیار کے خوش رنگ پھول کھلیں تو تم کو یہ دنیا بھی جنت ہی محسوس ہو۔

(احمد اقبال کے ناول شکاری سے اقتباس)

منگل، 19 اپریل، 2016

مزید حماقتیں از شفیق الرحمٰن سے اقتباس

ذیلی اقتباس اس کتاب کے پہلے باب یعنی "تزکِ نادری" سے لیا گیا ہے۔

حملہ آوری اور برادر محمد شاہ کی ہماری ذات سے عقیدت
صبح سے محمد شاہ اپنا لشکر لے کر سامنے آیا ہوا تھا، مگر ابھی تک سعادتِ زیارت سے مشرف نہ ہوا تھا۔ دوپہر کو ایک ایلچی رنگین جھنڈا لہراتے ہوئے آیا اور معروض ہوا کہ "محمد شاہ صاحب نے دریافت کیا ہے کہ حملہ کرنے کا کس وقت ارادہ ہے؟" ہم نے پوچھا "ابے حملہ کیسا؟" ایلچی نے عرض کیا "خداوندِ نعمت وہ تو عرصے سے آپ کے حملے کے منتظر ہیں۔ اتنے دنوں سے تیاریاں ہوتی رہی ہیں۔ اگر حملہ نہ ہوا تو سب کو سخت مایوسی ہو گی۔ کل بارش کی وجہ سے لشکر اکٹھا نہ ہو سکا۔ اور پھر یہ رسم چلی آتی ہے کہ درہ خیبر سے آنے والے۔۔۔"
"بس بس! آگے ہمیں پتا ہے۔" ہم نے اسے ڈانٹا۔

ہفتہ، 26 مارچ، 2016

آبِ گم از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس

سب سے زیادہ تعجب انہیں اس زبان پر ہوا جو تھانوں میں لکھی اور بولی جاتی ہے۔ رپٹ کنندگان کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن منشی جی ایک شخص کو (جس پر ایک لڑکی سے زبردستی نکاح پڑھوانے کا الزام تھا) کو عقدبالجبرکنندہ کہہ رہے تھے۔ عملے کی آپس کی گفتگو سے انہیں اندازہ ہوا کہ تھانہ ہٰذا نے بنی نوع انسان کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک وہ جو سزایافتہ ہیں۔ اور دوسرے وہ جو نہیں ہیں، لیکن ہونے چاہییں۔ ملک میں اکثریت غیرسزایافتہ لوگوں کی ہے اور یہی بنائے فتور و فساد ہے۔
گفتگو میں جس کسی کا بھی ذکر آیا، وہ کچھ نہ کچھ "یافتہ" یا "شدہ" ضرور تھا۔ شارع عام پر مشکوک حرکات پر جن دو عورتوں کو گرفتار کیا گیا تھا، ان میں سے ایک کو اے ایس آئی شادی شدہ

ہفتہ، 17 نومبر، 2012

حکایت ایک باز اور مرغ کی

ایک جگہ پہ ایک باز اور ایک مرغ اکٹھے بیٹھے تھے۔ باز مرغ سے کہنے لگا کہ میں نے تیرے جیسا بے وفا پرندہ نہیں دیکھا۔ تو ایک انڈے میں بند تھا۔ تیرے مالک نے اس وقت سے تیری حفاظت اور خاطر خدمت کی، تجھے زمانے کے سرد و گرم سے بچایا۔ جب تو چوزہ تھا تو تجھے اپنے ہاتھوں سے دانہ کھلایا اور اب تو اسی مالک سے بھاگا پھرتا ہے۔

جمعرات، 8 نومبر، 2012

یہ وقت گزر جائے گا

درج ذیل واقعہ یا حکایت کہیں پہ پڑھی تھی۔ بات مختصر سی ہے، لیکن تاثر بہت سا چھوڑ گئی۔

کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی نے اپنے غلام ایاز کو ایک انگوٹھی دی اور کہا کہ اس پر ایک ایسی عبارت تحریر کرو جسے میں اگر خوشی میں دیکھوں تو غمگین ہو جاؤں

اتوار، 10 جون، 2012

چیخوف کے افسانے سے

مندرجہ ذیل اقتباس روسی زبان کے شہرہ آفاق مصنف چیخوف کی ایک کہانی سے لیا گیا ہے۔ اس میں قید یا سزائے موت پر بحث کے دوران ایک آدمی کہتا ہے کہ قید بہرحال سزائے موت سے بہتر ہے۔ بات بڑھنے پر وہ آدمی دوسروں سے شرط لگاتا ہے کہ وہ بیس لاکھ کے عوض پندرہ سال تک قیدِ تنہائی جھیلنے کو تیار ہے۔
اس قید کے دوران وہ کسی انسان سے نہ رابطہ رکھ سکے گا، نہ کسی سے بات کر سکے گا۔ صرف اس کو کتابیں مہیا کی جائیں گی۔
جو بھی وہ چاہے یا جتنی بھی مانگے، ہر قسم کی کتاب اس کو مہیا کی جائے گی۔ اس کے بعد مصنف بتاتا ہے کہ کس طرح اس نے شروع میں سنسنی خیز اور رومانوی ناولز پڑھے، اس کے بعد فلسفے، تاریخ اور مختلف زبانوں کی کتب منگوائیں۔ اس کے بعد انجیل، مذہب اور مذہبی تاریخ کی کتب۔ اور اس کے بعد شیکسپیئر، بائرن، علمِ کیمیا، طبیعیات اور نجانے کس کس قسم کی کتب پڑھتا رہا۔

پیر، 20 جون، 2011

ڈھے جانے سے ذرا پہلے

تم یہ جو موہنجو دیکھتے ہو، جس کی چھتیں تمہیں دکھائی دے رہی ہیں تو یہ وہ نہیں جو کبھی آج سے ہزار برس پہلے تھا۔ یہ تو اب مٹی ہو رہا ہے۔

بازار بھرے ہوئے ہیں، سندھو میں کشتیاں ہیں اور گوداموں میں کنک بھری ہوئی ہے تو مٹی کیسے ہو رہا ہے؟

جس سمے کوئی شے ہمیشہ کے لئے ڈھے جانے کو ہو تو اس سے پہلے بازار بھر جاتے ہیں اور دریا میں کشتیاں ہوتی ہیں اور گوداموں میں کنک بھر جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ڈھے جانے سے ذرا پہلے۔

بہاؤ ازمستنصر حسین تارڑ سے اقتباس

اتوار، 19 جون، 2011

میں رائیگاں گیا

یہ میرا پہلا مجموعۂ کلام یا شاید پہلا اعتراف شکست ھے جو انتیس تیس برس کی تاخیر سے شائع ھو رہا ھے۔ یہ ایک ناکام آدمی کی شاعری ھے۔ یہ کہنے میں بھلا کیا شرمانا کہ میں رائیگاں گیا۔

مجھے رائیگاں ہی جانا بھی چاہیئے تھا۔ جس بیٹے کو اس کے انتہائی خیال پسند اور مثالیہ پرست باپ نے عملی زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ نہ سکھایا ھو بلکہ یہ تلقین کی ھو کہ علم سب سے بڑی فضیلت ھے اور کتابیں سب سے بڑی دولت تو وہ رائیگاں نہ جاتا تو اور کیا ہوتا۔

یہ اقتباس جون ایلیا کے پہلے شعری مجموعے "شاید" کے دیباچے سے ھے۔