پیر، 25 اپریل، 2016

فورٹی رولز آف لو از ایلف شفق

ترک نژاد مصنفہ ایلف شفق کا ناول فورٹی رولز آف لو پہلی دفعہ 2009 یا 2010 میں شائع ہوا تھا۔ لیکن نجانے کیوں اس ناول نے گزشتہ دو تین سالوں میں زیادہ شہرت پائی ہے۔ کچھ احباب سے اس ناول کی شہرت سن کر میں نے بھی آخرکار اس کو پڑھ ہی ڈالا۔ اگر پہلے سے کچھ علم یا ریویو نہ ہو تو اس ناول کا نام کافی مس لیڈنگ ہو سکتا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ رومانوی یا ازدواجی زندگی میں کامیابی کا نسخہ لئے ہوئے کوئی کتاب ہو گی۔ تاہم اس کتاب کا موضوع کافی مختلف اور چونکا دینے والا ہے۔ فورٹی رولز آف لو کی کہانی دراصل دو مختلف ادوار یا دو مختلف دنیاؤں میں چلنے والی دو کہانیوں کو ساتھ لے کے چلتی ہے۔

ناول کا مرکزی کردار ایلا نامی چالیس سالہ عورت ہے، جو اپنی ازدواجی زندگی کی تقریباً دو دہائیاں گزار چکی ہے۔ مصنفہ نے بتایا ہے کہ ایلا کی زندگی (یا ازدواجی زندگی) کافی بور اور یکسانیت کا شکار ہے اور اس کی زندگی بس گھر کی سجاوٹ اور مختلف پکوان پکانے تک محدود ہے۔ نیز یہ کہ ایلا کو اپنے شوہر پہ کافی شک (بلکہ یقین) ہے کہ وہ دیگر خواتین کے ساتھ بھی وقت بِتاتا رہتا ہے۔
اسی اثنا میں ایلا کو اس کا شوہر وقت گزاری کے لئے کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرنے کا مشورہ دیتا ہے اور اس کو مانتے ہوئے ایلا ایک پبلشنگ کمپنی میں نسبتاً آسان سی نوکری شروع کرتی ہے۔ اس کمپنی کی جانب سے ایلا کو ایک کتاب پہ ریویو لکھنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔ یہی وہ اہم موڑ ہے، جس سے ایلا کی زندگی میں اہم تبدیلی اور ناول میں دلچسپی کا آغاز ہوتا ہے۔ ایلا کو دیئے جانے والے ناول کا نام سویٹ بلاسفیمی ہے اور یہ عزیز اے زاہرا نامی غیرمعروف مصنف کا لکھا ہوا ہے۔ مصنف خود بھی صوفی نظریات کا حامل ہے اور اس کی کہانی بھی بنیادی طور پہ مولانا رومی اور شمس تبریز کے بارے میں ہے۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران ہی ایلا کا اس کتاب کے مصنف سے ای میل وغیرہ کے ذریعے رابطہ شروع ہوتا ہے۔
 
اس کے بعد ناول کا انداز یہی ہے کہ ایک باب مولانا رومی اور شمس تبریز کے بارے میں اور اگلا باب ایلا کی موجودہ زندگی کے بارے میں۔ مولانا رومی اور شمس تبریز کی کہانی شاید کچھ کچھ حقیقی اور کچھ کچھ تخیل پہ مبنی ہے۔ تاہم ایلف شفق نے تاریخِ تصوف کی ان دو نامی گرامی ہستیوں کی کہانی کو ایلا کی موجودہ بدلتی زندگی کی کہانی سے لا جوڑا ہے۔ اور جتنا میں نے فورٹی رولز آف لو کے بارے میں پڑھا ہے، اسی پہلو کو لوگوں نے سراہا ہے۔ لیکن میری ذاتی رائے پوچھیں تو اسی جگہ مصنفہ ناکام ہوئی ہیں۔ دو تقریباً مختلف نوعیت کی کہانیوں یا واقعات کو آپس میں متوازی پیش کرنا مجھے کافی عجیب سا اور زبردستی نما لگا۔ اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ مولانا رومی اور شمس تبریز کی بجائے ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں یا کسی اور مشہور رومانوی داستان کو سبجیکٹ بنا کے ایلا صاحبہ کو اس سے سبق پڑھایا جاتا۔
 
رومی اور شمس کے تعلق (یا عشق) سے شاید مصنفہ دکھانا یہ چاہ رہی تھی کہ کیسے عشق انسان کو تبدیل کرتا ہے، آزماتا ہے یا اس کو طاقت مہیا کرتا ہے۔ لیکن ایسی تبدیلی ایلا میں آتی نظر نہیں آئی۔ میرے خیال سے عشق یا محبت انسان کو سنوارتا ہے۔ یہاں ایلا صاحبہ الٹی راہ پہ چل پڑیں اور شوہر اور بچوں کو کہا خیرباد، اور عزیز اے زاہرا کے پاس چلی آئیں۔ وہاں جا کے پتا چلا کہ عزیز کو کینسر ہے اور وہ قریب المرگ ہے۔ چند ہی ہفتوں میں عزیز کی وفات ہوئی اور مصنفہ نے اس کی خواہش کے مطابق قونیہ (جہاں مولانا رومی کا مزار واقع ہے) میں اس کی تدفین کا انتظام کیا، اور پھر اپنی باقی زندگی صوفی ازم کے لئے وقف کر دی۔ وغیرہ وغیرہ۔

اس ناول کو پڑھنے میں میری دلچسپی کی ایک بڑی وجہ مولانا رومی اور خصوصاً ان کی مثنوی کے بارے میں کچھ جاننا تھا۔ اس بابت بھی کافی تشنگی ہی رہی۔مثنوی کا بھی فقط تذکرہ ہی ہوا کہ شمس تبریز کی وفات (یعنی قتل) کے بعد رومی نے مثنوی لکھنا شروع کی۔

اسی کے ساتھ ساتھ ایلف شفق کے اندازِ تحریر کی داد ضرور دینا ہو گی۔ میرے خیال میں جس چیز نے اس ناول کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ہے، وہ اس کا اندازِ تحریر ہی ہے۔ ناول کی کہانی کی ابتدائی بُنت اور پورے ناول میں الفاظ کا چناؤ، جملوں کی تشکیل وغیرہ بہت شاندار اور متاثرکن ہے۔ دو مختلف ادوار کی کہانیوں میں کس موڑ پہ ایک کو دفعتاً روک کر دوسری کہانی تک جا پہنچنا ہے اور کب واپس لوٹنا ہے، یہ پہلو بھی بہت شاندار ہے۔

اور آخر میں بات اس ناول کے نام کی مناسبت سے۔ فورٹی رولز آف لو (یعنی عشق کے چالیس بنیادی اصول) مولانا رومی اور شمس تبریز والی کہانی میں جناب شمس تبریز کے فرمودات نما اصول ہیں جو پورے ناول میں کہانی کے ساتھ ساتھ ایک ایک کرکے شامل کئے گئے ہیں۔ اس کتاب کی جان یہی چالیس اصول قرار دیئے جائیں تو کچھ بے جا نہ ہو گا۔ مثال کے طور پر پہلے اصول کا اردو ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔
ہم خدا کے بارے میں جو گمان رکھتے ہیں، وہ دراصل ہماری اپنی شخصیت کے بارے میں ہمارے گمان کا ایک عکس ہوتا ہے۔اگر خدا کے ذکر سے ذہن میں محض الزام اور خوف ہی ابھرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ خوف اور الزام تراشی ہمارے اپنے سینے کی گھٹن میں پنپ رہی ہے۔ اور اگر خدا ہمیں محبت اور شفقت سے چھلکتا ہوا دکھائی دے، تو یقیناّ ہم بھی محبت اور شفقت سے چھلک رہے ہیں۔

تمام 40 اصول درج ذیل لنکس پہ اردو میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ویسے میں یہ جاننے سے قاصر ہی رہا ہوں کہ آیا یہ چالیس اصول ایلف شفق نے ہی وضع کئے ہیں، یا تاریخی طور پہ ان کا کوئی وجود بھی تھا۔
http://tinyurl.com/z9vavpy

6 تبصرے:

  1. زبردست۔
    ہم تو کہتے ہیں آپ ایک بلاگ اس قسم کے ریویو دینے کے لیے وقف کر دیجیے۔ مفت کی کتابیں وصولیے، آرا دیجیے اور بعد میں ہمیں کتاب ڈاک کے ذریعے اور تبصرے کا لنک ای میل کے ذریعے روانہ کر دیا کیجیے۔
    کر بھلا سو ترا بھلا ہو گا
    اور درویش کی صدا کیا ہے!

    جواب دیںحذف کریں
  2. شکریہ جناب۔
    مشورہ یقیناؐ صائب ہے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ باقاعدہ طریقے سے کام کرنا پڑ گیا تو آوارہ فکری کیونکر ممکن ہو پائے گی،جو اس بلاگ کا منشور و اساس ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. kaya aap ke mazameen Aikrozan.com pe shaya kie ja saktay hain.
    hum chahtay hain ke aap ke purfikr maqaalat ko apni site pe shaya karain. magar aap ki ijazat aur aap ka name darkaar hai.plz inform us
    niqaat@gmail.com
    0345-7776776
    plz visit our site
    Aikrozan@.com

    جواب دیںحذف کریں
  4. مولانا رومی، شمس تبریز اور ناول ’’محبت کے چالیس اصول‘‘
    کے نام سے ہم نے ایک تبصرہ شائع کیا ہے۔ کیا آپ اپنا تبصرہ ہماری سائٹ کو بھجوانا چاہیں گے؟
    ’’ایک روزن‘‘ کے لیے؟
    میں منتظر ہوں آپ کے جواب کا

    جواب دیںحذف کریں
  5. http://www.aikrozan.com/%D9%85%D9%88%D9%84%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D8%B1%D9%88%D9%85%DB%8C%D8%8C-%D8%B4%D9%85%D8%B3-%D8%AA%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D8%B2-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%86%D8%A7%D9%88%D9%84-%D9%85%D8%AD%D8%A8/

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر