میری تحاریر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
میری تحاریر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 9 جولائی، 2018

فلم "سنجو" کے بارے میں

فلم "سنجو"سنجے دت کی زندگی پہ بنی فلم ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی ڈائریکشن راجکمار ہیرانی کی ہے جس نے اس سے قبل پی کے، تھری ایڈیٹس اور منا بھائی ایم بی بی ایس جیسی کمال فلمیں بنائی ہیں۔
ایک بایوگرافی فلم ہونے کی وجہ سے سنجو میں ویسی سنسنی، ڈرامائی موڑ اور کلائمکس وغیرہ نہیں ہے جو پی کے یا تھری ایڈیٹس وغیرہ میں تھے، تاہم اس کے باوجود بھی یہ کافی بہتر فلم ہے۔
رنبیر کپور نے سنجے دت کے رول میں زبردست ایکٹنگ کی ہے، جبکہ پاریش راول نے بھی سنیل دت کے کردار کا خوب حق ادا کیا ہے۔


بدھ، 21 مارچ، 2018

راولپنڈی نامہ

کچھ عرصہ قبل ایک بلاگ میں کراچی کے مختلف علاقوں کے دلچسپ اور انوکھے نام پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ راولپنڈی اسلام آباد کے مختلف علاقوں کے ناموں پہ غور کیا تو اندازہ ہوا کہ یہاں بھی کافی عجیب و غریب نام کے علاقے موجود ہیں۔ اس بلاگ میں ایسے ہی کچھ ناموں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

  1. آدڑہ
  2. جھنڈا چیچی
  3. ٹاہلی موہری
  4. سلطان دا کھوہ
  5. چوہڑ چوک
  6. ہاتھی چوک
  7. بیکری چوک
  8. کار چوک
  9. ترامڑی چوک
  10. ڈھوکری چوک

اتوار، 29 جنوری، 2017

آسٹریلین اوپن کے فائنل کے بعد پاکستان کی صورتحال

۔ ساری قوم نے پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پر خوشیاں منائیں اور فیڈرر کے حق میں نعرے لگائے۔ اسی دوران ٹریفک بلاک رہی اور رہ چلتی خواتین کو بھی تنگ کیا گیا۔ بعض منچلوں نے رافیل نڈال کے پتلے بھی جلائے۔

۔ وزیراعظم نے فیڈرر کو مبارک باد دیتے ہوئے جلد سوئٹزرلینڈ کے دورے پہ آنے کا اعلان کیا۔ دریں اثنا رافیل نڈال سے ہمدردی کرتے ہوئے وزیراعظم نے ان کو نیک خواہشات کا پیغام بھیجا اور بارسلونا سے میڈرڈ تک موٹروے بنانے کا بھی "سُکا" اعلان کیا۔

ہفتہ، 12 نومبر، 2016

اپنی ذات کا دائرہ

ایک بار میں کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے ایک بات کہی کہ مجھے پتنگ بازی، آتش بازی، کبوتر بازی وغیرہ سے سخت نفرت ہے اور میرے بس میں ہو تو اس پہ پابندی لگوا دوں۔ ایک دوست بولا کہ آتش بازی اور کبوتر بازی والی بات تو ٹھیک ہے لیکن پتنگ بازی میں تو کوئی حرج نہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا پتنگ بازی میں کوئی حرج اس لئے نہیں ہے کہ یہ تم خود بھی پسند کرتے ہو۔

اسی طرح کی مثال بانو قدسیہ نے بھی راجہ گدھ میں بیان کی ہے جو عورتوں کے بارے میں ہے کہ جو عورت پردہ کرتی ہے، وہ اس کو گناہگار سمجھتی ہے جو کہ نقاب نہیں اوڑھتی۔ جو دوپٹے سے سر ڈھانپتی ہے، وہ بال کھول کر رکھنے والی کو گناہگار کہتی ہے۔ اور بال کھول کر باہر نکلنے والی عورت ناچ گانے والی کو برا کہتی ہے۔ اور ناچ گانے والی جسم فروشی کرنے والی کو گنہگار قرار دیتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ

بدھ، 30 مارچ، 2016

داعش کی پسپائی کا آغاز؟

صرف چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ داعش یا اسلامی سٹیٹ کے نام سے مشہور شدت پسند تنظیم نے عراق اور شام کے وسیع علاقے پر قبضہ کر کے اس پہ اپنی حکومت قائم کی ہوئی تھی۔ ان علاقوں پہ داعش کا نفوذ یا ہولڈ اس قدرتھا کہ اس علاقے کو ایک طرح سے ڈی فیکٹو سٹیٹ قرار دیا جا رہا تھا، جس کی اپنی معیشت، پولیس اور سرحدی چوکیاں وغیرہ تھیں۔ داعش کی جنگی یا جغرافیائی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ بیس لاکھ سے زیادہ آبادی والا شہر موصل بھی ان کے قبضے میں تھا۔

اتوار، 21 فروری، 2016

تاریخ اور مبالغہ ۔ ابنِ خلدون کی نظر سے

تاریخ کا فقط ایک مصرف ہے اور وہ یہ کہ اس سے سبق حاصل کیا جائے، عبرت پکڑی جائے، اور اس کی روشنی میں اپنے مستقبل کی راہوں کا تعین کیا جائے۔ بدقسمتی سے من حیث القوم ہم نے تاریخ کا مصرف یہ نکالا ہے کہ اس کے خوشگوار حصوں کا بھجن گایا جائے اور اس کے ناخوشگوار حصوں کا انکار کیا جائے، اور اگر خوشگوار حصوں کی کمی محسوس کریں تو حسبِ توفیق اس میں مبالغہ آرائی کا تڑکا لگانے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ لیکن تاریخ اور تواریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ چلن صرف ہمارا یا عہدِ حاضر کا ہی نہیں ہے، بلکہ ہمیشہ سے تاریخ میں من پسند و من گھڑت فسانہ نویسی شامل کی جاتی رہی ہے۔

جمعہ، 30 مئی، 2014

ایک "کُوگی" کی داستان

چند ماہ قبل کراچی میں میری ملاقات جرمنی کے دو افراد سے ہوئی جو کہ اپنی کمپنی کے کاروبار کے سلسلے میں یہاں میٹنگ کے لئے آئے تھے۔ ایئرپورٹ کے قریب ایک ہوٹل میں میٹنگ کی گئی۔ اسی دوران کھانے کا وقت ہو گیا تو ہم سب لوگ لنچ والے ہال میں چلے گئے۔ اب بیٹھے کھانا کھا رہے تھے تو گوروں کی عادت کے مطابق یعنی کھانے کے دوران بزنس کی بات نہیں کرتے، بلکہ جنرل گپ شپ کی جاتی ہے، ہم نے بھی ان سے ہلکی پھلکی بات چیت شروع کی۔
میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ تو یہاں بور ہو رہے ہو گے۔ یہاں نہ تم لوگوں کی گرل فرینڈز ہیں، نہ ہی باہر گھومنے پھرنے کے حالات ہیں اور نہ ہی پینے پلانے کو بارز موجود ہیں۔ گورا صاحب نے کہا کہ باقی سب تو میسر نہیں ہے، لیکن پینے پلانے کو یہاں ہوٹل میں ہی مل جاتا ہے۔ بس اس کے لئے کچھ قواعد و ضوابط کی پابندی کرنی پڑتی ہے جیسے

اتوار، 13 اپریل، 2014

خوش قسمت کون؟

کوئی سال دو پہلے کی بات ہے۔ ایپل کمپنی کے مشہورِ زمانہ بانی سٹیو جابز کی وفات کی خبر سنی تو بہت سے لوگوں کا یہ کمنٹ سننے یا پڑھنے کا موقع ملا کہ امریکہ خوش قسمت ہے کہ اس میں سٹیو جابز جیسے لوگ پیدا ہوئے۔ ایسے کمنٹس کو سن کے یا پڑھ کے جو پہلا خیال میرے ذہن میں آیا، وہ یہ تھا کہ خوش قسمت امریکہ نہیں کہ اس میں سٹیو جابز پیدا ہوا۔ بلکہ خوش قسمت سٹیو جابز تھا کہ وہ امریکہ میں پیدا ہو گیا۔
ذرا سوچیئے کہ اگر سٹیو جابز صاحب شومئیِ قسمت سے ہمارے یہاں پیدا ہو جاتے۔ اول تو سکول کالج کے لیول پہ ہی جناب کا سارا ذوق و شوق و جستجو مر کھپ چکے ہوتے۔ محترم کوئی چھوٹی موٹی اور سچی یا جھوٹی ڈگری کما کے ریلوے یا واپڈا میں اچھی سی نوکری لگنے کے اور پھر چاند سی بہو لانے کے سپنوں سے ہی باہر نہ آ پاتے۔

جمعرات، 3 جنوری، 2013

ایم کیو ایم اور طلاقِ رجعی کا بیان!!

نجانے کتنی بار یہ ڈرامہ کھیلا جا چکا ہے۔ اب تو اس کا شمار بھی مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن گزشتہ ساڑھے چار، پانچ سالوں میں ہر سال ایک سے زیادہ دفعہ یہ ڈرامہ کم و بیش اسی ترتیب سے دہرایا جاتا ہے۔
آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے اچانک بغیر کسی فوری وجہ کے زرداری حکومت کو آنکھیں دکھائی جاتی ہیں۔ کچھ بار تو ایم کیو ایم کے وزراء نے عہدے بھی چھوڑ دیئے۔

ہفتہ، 29 دسمبر، 2012

پاک بھارت تجارت ۔ کس کا فائدہ، کس کا نقصان؟

مولانا ابوالکلام آزاد نے قیامِ پاکستان سے بھی پہلے اپنے ایک انٹرویو میں بہت سی باتوں میں ایک بات یہ بھی کہی تھی کہ برِصغیر کا مسلمان تاجر اور صنعتکار طبقہ نااہل ہے اور اوپن مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسی لئے ان کی تمام تر ہمدردیاں اور وفاداریاں تحریکِ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہیں، تاکہ یہ نئی مملکت میں ملک اور مذہب کے نام پہ اپنی دکان چمکا سکیں۔

بدھ، 14 نومبر، 2012

کیا امریکہ ٹوٹ رہا ہے؟ خوش فہمی یا حقیقت

آج کے اخبار کی شہ سرخی کافی چونکا دینے والی ہے۔ سب سے پہلے خبر دیکھئے، جو آج یعنی ۱۳ نومبر کے جنگ اخبار کی ہے۔
Quote:
کراچی (جنگ نیوز) امریکی قانون عوام کو آزادی کا حق دیتا ہے۔ حکومت کی غلط پالیسیوں سے متاثرہ افراد کا گروہ جب چاہے اپنے لیے علیحدہ ریاست قائم کرنے کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اپنے اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے 50میں سے 20 امریکی ریاستوں کے شہریوں نے متحدہ امریکا سے علیحدگی کا مطالبہ کردیا۔ اس سلسلے میں پہل لوزیانا نے کی اور بعد ازاں ٹیکساس، الاباما، آرکانساس، کولوراڈو، فلوریڈا، جارجیا، انڈیانا، کینٹکی،مشی گن، مسی سیپی، میسوری، مونٹانا، نیوجرسی، نیویارک، شمالی کیرولینا،شمالی ڈکوٹا، اوریگون، جنوبی کیرولینا اور ٹینیسی نے بھی وائٹ ہاﺅس کی ویب سائٹ پر علیحدہ حکومت قائم کرنے کے درخواست دائر کردی

ہفتہ، 10 نومبر، 2012

اقبال کی ایک نظم اور ہمارے لئے پیغام

 انسان
منظر چمنستاں کے زيبا ہوں کہ نازيبا
محرومِ عمل نرگس مجبورِ تماشا ہے
رفتار کي لذت کا احساس نہيں اس کو
فطرت ہي صنوبر کي محروم تمنا ہے

جمعرات، 8 نومبر، 2012

The Man Who Knew The Future

بات میٹھی ہو یا کڑوی ہو، علم ہو جانے میں زیادہ حرج نہیں ہے۔ کیونکہ بہرحال جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہو سکتے۔ اسی چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بلاگ کو شیئر کر رہا ہوں۔ ویسے یہ کچھ ایسی نئی بات یا بریکنگ نیوز نہیں ہے، بہت سے دوستوں نے اس بابت سنا یا پڑھا ہو گا۔ تاہم اس کو اس لئے بھی شیئر کر رہا ہوں کہ شاید اگلے کچھ بلاگز میں اس کا ذکر یا حوالہ دینا پڑے۔

بدھ، 24 اکتوبر، 2012

خوف اور غم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

انسان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ایسی مخلوق ہے جس کے آگے شاید ہی کوئی کام ناممکن ہو۔ انسانی سوچ کی وسعت اور بلند پروازیٔ تخیل کی کوئی حد نہیں ہے۔ بے شک انسان ایک حد کے اندر تقریبا" ہر کام کر سکتا ہے لیکن وہ اس دنیا میں کچھ بھی کر لے، دو چیزیں ایسی ہیں جن سے وہ اس دنیا میں چھٹکارا نہیں پا سکتا۔ اور وہ ہیں خوف اور غم۔ اگر آپ بھی غور کریں تو آپ کو بھی محسوس ہو گا کہ آپ جتنے مرضی اچھے حالات میں ہوں

جمعرات، 18 اکتوبر، 2012

قرآن پاک کے ایک نسخے کی داستان

۔ ۔ ۔ ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں قرآن پاک کی تدوین ہوئی۔ تاریخ دانوں کی تحقیق کے مطابق اس کی حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کی تدوین کا عمل تو اس سے پہلے بھی شروع ہو چکا تھا لیکن حضرت عثمان کے دور میں قرآن پاک کی تدوین شدہ کاپیوں پر اتفاق رائے پیدا کیا گیا اور ایک متفقہ کاپی کی تدوین کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان نے قرآن پاک کے چار (ایک روایت کے مطابق سات) نسخے تیار کرائے

اور حکم دیا کہ ان ساتوں نسخوں کو ایک ایک کر کے مسجد نبوی میں بآوازِ بلند پڑھا جائے تاکہ سب سن لیں اور غلطی کا کوئی امکان یا شبہ نہ رہے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے اسلامی سلطنت جو کہ یورپ، وسطی ایشیا اور افریقہ تک پھیل چکی تھی، اس کے بڑے بڑے صوبوں میں یہ نسخے بھیجے کہ آئندہ صرف انہی سرکاری نسخوں سے مزید نقول تیار کی جائیں۔

ہفتہ، 13 اکتوبر، 2012

ہوس جاہ کی

 مختلف لوگوں سے اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ جیسے

 یار زرداری صاحب نے اتنا مال سمیٹ لیا ہے کہ اس کی نسلیں ہزاروں سال تک کھا سکتی ہیں۔ اب سکون کیوں نہیں کرتا۔ بیرون ملک جا کے چین سے کیوں نہیں جیتا۔

 مشرف صاحب اربوں روپیہ ڈکار گئے ہیں۔ اب بھی ان کو بیرونِ ملک چین کیوں نہیں آ رہا۔ کیوں پاکستان واپسی کے اعلان کرتا پھرتا ہے۔

اور ایک صاحب نے اس سب صورتحال کو ایک دلچسپ اینگل سے بیان کیا

بدھ، 6 جون، 2012

تیز تر گروتھ ریٹ ۔ چین کو درپیش سب سے بڑا چیلنج

اس وقت چین کو ایک ایسا چیلنج درپیش ہے جو کہ شاید کسی اور ملک کو درپیش نہیں ہے۔ اور وہ چیلنج ہے کہ

گروتھ ریٹ کیسے کم کیا جائے؟
یعنی شرحٔ ترقی کو کیسے کنٹرول میں رکھا جائے
How to reduce (or control) the growth rate

حیرت ہوئی نا!! یہ سب پڑھ کے۔ لیکن ایسا کیوں ہے، یہ بات کچھ تفصیل کی محتاج ہے۔

اجمال اس حقیقت کا یوں ہے کہ ویسے تو ہر ملک اور ہر معیشت ہی چاہتی ہے کہ اس کا گروتھ ریٹ زیادہ سے زیادہ ہو۔ لیکن اس گروتھ ریٹ کے ساتھ منسلک کچھ مسائل یا چیلنجز بھی ہوتے ہیں جن سے نمٹنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔

جمعہ، 25 مئی، 2012

انجینئرنگ کیا ہے؟

میرے سے اگر کوئی یہ کہے کہ ایک لفظ میں انجینئرنگ کو بیان کریں تو میرا جواب بلاتوقف یہ ہو گا "آپٹی مائزیشن"۔

آپٹی مائزیشن کا لفظ آپ کے لئے نیا نہیں ہو گا۔ اس کی آسان ترین مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اگر آپ نے ایک کلو مٹھائی ڈالنے کے لئے ڈبہ بنانا ہو تو ڈبہ اسی سائز ہی کا بنائیں جس میں ایک کلو مٹھائی آ جائے، پانچ کلو کی کیپیسٹی کا ڈبہ بنانا ریسورسز کا ضیاع کہلائے گا۔ اسی طرح ڈبہ اتنا ہی مضبوط ہو کہ اس میں ایک کلو یا کچھ زیادہ وزن ڈالا جائے تو وہ نہ ٹوٹے۔ اس سے زیادہ مضبوطی کی ضرورت نہیں ہے۔

جمعرات، 19 اپریل، 2012

بابائے کے ایف سی ۔ کرنل ہارلینڈ سینڈرز

تقریباً ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ترقّی کرے اور نام بنائے۔ زندگی کچھ انسانوں کو اس کے مواقع دیتی ہے۔ کچھ لوگ ان مواقع سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں، کچھ اس میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ لیکن انسانوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو کہ مواقع کی تلاش یا انتظار میں نہیں رہتے بلکہ خود سے اپنے لئے مواقع پیدا کر لیتے ہیں۔ کرنل ہارلینڈ سینڈرز بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں۔
تقریباً سب نے ہی 'کے ایف سی' کے سائن بورڈز یا اس کے لوگوز پر بنی ایک بوڑھے شخص کی تصویر دیکھی ہو گی۔

جمعہ، 19 اگست، 2011

سوشل میڈیا کا دور دورہ

ایک وقت تھا کہ میڈیا کا دور دورہ تھا اور کسی بھی بات سے باخبر رہنے یا رائے بنانے کے لئے معتبر ترین ذریعہ میڈیا ہی تھا۔

گزشتہ کچھ عرصے میں بہت سے ایسے واقعات دیکھے جا سکتے ہیں جن سے میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ میڈیا سے بڑھ کے بھی نئے آسمان وا اور نئی جہات آشکار ہو چکی ہیں۔

ایک مثال تو اسامہ آپریشن کی ہے۔ جس وقت یہ آپریشن ہو رہا تھا تو ایبٹ آباد میں اس گھر سے قریب ہی کوئی نیٹ کی دنیا کا باسی رات کے اس پہر بھی نیٹ پہ بیٹھا ہوا تھا اور آپریشن کے دوران ہونے والی کاروائی کو جس حد تک وہ سمجھ سکا، وہ سب اس نے ٹوئٹر پہ لائیو اپ ڈیٹ کی۔ یہ کسی بھی نیوز ایجنسی سے کہیں پہلے نشر ہونے والی خبر کہلا سکتی ہے۔