حالیہ ٹی20 ورلڈکپ میں شرمناک شکست کے بعد یار لوگ مختلف قسم کے حل پیش کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ویوین رچرڈز کو کوچ لگوا دو، کوئی ڈین جونز اور کوئی وسیم اکرم کو کوچ بنانے میں کرکٹ کی بہتری دیکھ رہا ہے۔
اس ضمن میں میری رائے ان سے کچھ مختلف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کرکٹ کے مسائل ان تکنیکی باریکیوں سے کہیں بڑے اور گھمبیر ہیں۔ سب
سے بڑا مسئلہ احتساب کا ہے کہ یہاں کسی کو ڈر نہیں کہ کوئی پوچھے گا۔
کھلاڑی اپنی من مانی کرتے ہیں اور بورڈ انتظامیہ بشمول سلیکشن کمیٹی ایسے
فیصلے کرتے ہیں کہ چارلی چپلن یا امان اللہ جیسے کامیڈین کو بھی مات کرتے
ہیں۔ ماضی قریب کی مثال ہی دیکھ لیں کہ کیسے انہوں نے رفعت اللہ مہمند کا
مردہ قبر سے نکال کے اس کو ٹی20 کھلا لیا۔یا خرم منظور کو ٹی20 میں اور
یونس خان کو ون ڈے ٹیم میں ڈال دیا۔
دنیا میں جن ٹیموں نے عروج دیکھا ہے، وہاں انتظامیہ کے معاملات پر ہولڈ کا اندازہ اس بات سے کر لیں کہ سٹیو واہ جیسے عظیم کھلاڑی کو اس کی خواہشات کے باوجود سلیکشن کمیٹی نے 2003 کے ورلڈکپ میں نہ کھلایا۔ یہی کام مائیکل بیون جیسے کھلاڑی کے ساتھ 2007 کے ورلڈکپ میں کیا گیا (یعنی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا)۔ بھارت میں 2007 تک ٹیم میں گروہ بندی اور بدانتظامی عروج پہ تھی اس لئے ٹنڈولکر، ڈراوڈ، سہواگ، گنگولی کمبلے وغیرہ جیسے نامی گرامی کھلاڑیوں کے ہونے کے باوجود ٹیم کے کریڈٹ پہ کچھ نہیں تھا۔ 2007 میں بھارتی بورڈ کا سربراہ شردپوار نامی سیاست دان کو بنایا گیا، جس نے پلیئر پاور کا ایسا خاتمہ کیا کہ ڈراوڈ اور گنگولی جیسے کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر بٹھا دیا۔ اس کے بعد سے کیا ٹیسٹ، کیا ون ڈے، کیا ٹی 20۔۔ انڈین کرکٹ کارنامے سمیٹے جا رہی ہے۔
یہی حال انگلش انتظامیہ نے اپنی حالیہ تاریخ کے کامیاب ترین بلے باز کیون پیٹرسن کے ساتھ کیا، یعنی ڈسپلن کی خلاف ورزی پہ ٹیم سے باہر کر دیا۔
یہاں یہ عالم ہے کہ ورلڈکپ میں ذلیل و رسوا اور نامراد ہونے کے بعد بھی کرکٹ بورڈ کا چیئرمین شاہد آفریدی کا شکریہ ادا کر رہا ہے کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پہ کپتانی چھوڑ دی۔(یعنی ہم تو ان کو اتارنے کی سکت نہ رکھتے تھے)۔
دنیا میں جن ٹیموں نے عروج دیکھا ہے، وہاں انتظامیہ کے معاملات پر ہولڈ کا اندازہ اس بات سے کر لیں کہ سٹیو واہ جیسے عظیم کھلاڑی کو اس کی خواہشات کے باوجود سلیکشن کمیٹی نے 2003 کے ورلڈکپ میں نہ کھلایا۔ یہی کام مائیکل بیون جیسے کھلاڑی کے ساتھ 2007 کے ورلڈکپ میں کیا گیا (یعنی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا)۔ بھارت میں 2007 تک ٹیم میں گروہ بندی اور بدانتظامی عروج پہ تھی اس لئے ٹنڈولکر، ڈراوڈ، سہواگ، گنگولی کمبلے وغیرہ جیسے نامی گرامی کھلاڑیوں کے ہونے کے باوجود ٹیم کے کریڈٹ پہ کچھ نہیں تھا۔ 2007 میں بھارتی بورڈ کا سربراہ شردپوار نامی سیاست دان کو بنایا گیا، جس نے پلیئر پاور کا ایسا خاتمہ کیا کہ ڈراوڈ اور گنگولی جیسے کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر بٹھا دیا۔ اس کے بعد سے کیا ٹیسٹ، کیا ون ڈے، کیا ٹی 20۔۔ انڈین کرکٹ کارنامے سمیٹے جا رہی ہے۔
یہی حال انگلش انتظامیہ نے اپنی حالیہ تاریخ کے کامیاب ترین بلے باز کیون پیٹرسن کے ساتھ کیا، یعنی ڈسپلن کی خلاف ورزی پہ ٹیم سے باہر کر دیا۔
یہاں یہ عالم ہے کہ ورلڈکپ میں ذلیل و رسوا اور نامراد ہونے کے بعد بھی کرکٹ بورڈ کا چیئرمین شاہد آفریدی کا شکریہ ادا کر رہا ہے کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پہ کپتانی چھوڑ دی۔(یعنی ہم تو ان کو اتارنے کی سکت نہ رکھتے تھے)۔
کا حل نکل آیاجی۔ انضی بھائی کو سیلیکٹر بنا دیا گیا۔ اب کھلاڑی سہ روزہ لگایا کرینگے جس کے پرفارمنس خودبخود ہی بہتر ہوتی چلی جائے گی۔
جواب دیںحذف کریںلانگ ٹرم پلاننگ جی ابکی بار تو۔
بالکل درست فرمایا جناب۔ میں بھی دو تین دن سے یہی سوچ رہا تھا کہ اب نئی طرح کی ڈرامے بازی دیکھنے کو ملا کرے گی۔
جواب دیںحذف کریںعجب تماشہ ہے ایمان سے۔