بدھ، 6 جون، 2012

تیز تر گروتھ ریٹ ۔ چین کو درپیش سب سے بڑا چیلنج

اس وقت چین کو ایک ایسا چیلنج درپیش ہے جو کہ شاید کسی اور ملک کو درپیش نہیں ہے۔ اور وہ چیلنج ہے کہ

گروتھ ریٹ کیسے کم کیا جائے؟
یعنی شرحٔ ترقی کو کیسے کنٹرول میں رکھا جائے
How to reduce (or control) the growth rate

حیرت ہوئی نا!! یہ سب پڑھ کے۔ لیکن ایسا کیوں ہے، یہ بات کچھ تفصیل کی محتاج ہے۔

اجمال اس حقیقت کا یوں ہے کہ ویسے تو ہر ملک اور ہر معیشت ہی چاہتی ہے کہ اس کا گروتھ ریٹ زیادہ سے زیادہ ہو۔ لیکن اس گروتھ ریٹ کے ساتھ منسلک کچھ مسائل یا چیلنجز بھی ہوتے ہیں جن سے نمٹنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔

عموماً سات یا آٹھ فیصد گروتھ ریٹ کو کافی اچھا گروتھ ریٹ تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ ڈبل فگر (یعنی دس فیصد یا اس سے زائد) گروتھ ریٹ غیرمعمولی حد تک اچھا ہوتا ہے اور انتہائی تیز رفتار ترقی کی علامت ہوتا ہے۔

چائنہ کی معیشت گزشتہ بہت سے سالوں (یا عشروں) سے ڈبل فگر میں ترقی کر رہی ہے۔ بعض اندازے اس کو گیارہ یا بارہ فیصد سے بھی زائد بتاتے ہیں۔

لیکن جب کسی ملک کا گروتھ ریٹ اتنا بڑھ جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں بزنس کافی فروغ پا رہا ہے۔ اس چکر میں وہاں انفراسٹرکچر کی ڈیمانڈ بھی اسی مناسبت سے بڑھتی جاتی ہے۔
یعنی
شرحٔ ترقی کے نتیجے میں وہاں گاڑیوں کی ڈیمانڈ اور فروخت تیزی سے بڑھ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ایک تو کھلی کھلی سڑکیں بھی کم لگنے لگتی ہیں۔ جہاں ٹریفک سگنل سے کام چل جاتا تھا، وہاں فلائے اوور اور انٹرچینجز کی ضرورت پڑتی ہے۔ دوسری جانب گاڑیوں کی بے تحاشا ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لئے فیکٹریوں کی گاڑیاں بنانے کی استعدادِ کار بھی کم پڑ جاتی ہے۔
اسی طرح مزید گھر، آفس، دکانیں، مارکیٹیں بھی بنتے ہیں جبکہ پہلے سے موجود میں بھی ایئرکنڈیشنر اور دیگر تعیشات کا استعمال کافی بڑھ جاتا ہے، جس کی وجہ سے بجلی کی ڈیمانڈ بھی بڑھ جاتی ہے۔
باہر سے بزنس مین اور انویسٹر قطار اندر قطار چلے آتے ہیں۔ ان کے لئے پہلے سے زیادہ فلائٹس کی ضرورت پڑے گی۔ نتیجتاً ایئرپورٹس میں توسیع اور نئے ایئرپورٹس کی ضرورت۔
اسی طرح ہوٹلز، پبلک ٹرانسپورٹ، ریلوے سب وے وغیرہ۔ اس سب انفراسٹرکچر کو بھی تیزی سے ترقی دینا پڑے گی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک ملک یا معیشت امیر ہو رہا ہے تو وہ یہ سب درج بالا کام بھی کر سکے گا۔ جی بالکل یقیناً کر سکے گا۔ لیکن انفراسٹرکچر بننے میں وقت لگتا ہے جس کو ایک خاص حد سے زیادہ تیز نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی سڑکیں، پل، ریلوے، سب وے، ڈیم یا بجلی گھر، ایئر پورٹ، رن وے وغیرہ کو بنانے میں پلاننگ سے لے کر تعمیر اور آپریشنل ہونے تک کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ جبکہ ڈیمانڈ اس کی نسبت بے تحاشا تیزی سے بڑھ سکتی ہے۔ یعنی اگر کسی شہر میں کسی اچھی پالیسی یا لکی انویسٹمنٹ کی بدولت اچانک بزنس بڑھ جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہاں ایک ماہ میں کئی ہزار افراد گاڑیاں لے لیں اور گھروں میں اے سی لگوا لیں۔ لیکن ان کو اکاموڈیٹ کرنے کے لئے سڑکوں کی توسیع اور بجلی کی فراہمی کے لئے ایکسٹرا گرڈ سٹیشن کی تعمیر میں اس سے کہیں زیادہ وقت لگے گا۔

اس کی ایک چھوٹی سی مثال پاکستان کی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان نے مشرف کے ابتدائی دور میں مجموعی عالمی معیشت میں بہتری اور اپنی بہتر پالیسی کی بدولت تین چار سال تک سات سے آٹھ فیصد کی شرحٔ ترقی دیکھی تھی۔ اسی کے نتیجے میں سڑکوں پہ گاڑیوں اور گھروں میں ایئرکنڈیشنرز کی اتنی فراوانی ہوئی کہ اس کو اکاموڈیٹ کرنے کے لئے نہ سڑکیں موجود ہیں اور نہ بجلی پوری پڑ رہی ہے۔ اُس وقت گاڑیوں کی ڈیمانڈ کا یہ عالم تھا کہ لوگوں دو دو لاکھ روپے تک پریمیم (جس کو یہاں اون بھی کہا جاتا ہے۔ نجانے کیوں) دے کر گاڑیاں وصول پانے کو تیار تھے۔
اگرچہ کہ اتنے گروتھ ریٹ کو ہینڈل کرنا مشکل نہیں تھا، لیکن ہمارے ہاں نالائقی اور کوتاہ بینی بھی کچھ غیرمعمولی ہی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے یہ حال ہوا۔


چین کا حال دیکھیں تو وہاں دھڑا دھڑ انفراسٹرکچر بن رہا ہے۔ جس شہر کے جس کونے میں جائیں۔ وہاں فلائے اوورز، سب ویز، سڑکیں، ہوٹلز بن چکے ہیں اور مزید بھی بن رہے ہیں۔ ہزاروں کلومیٹر طویل بلٹ ٹرین کا ٹریک آپریشنل ہو چکا ہے۔ بے شمار ایئرپورٹس بن رہے ہیں اور پہلے سے موجود کو بھی توسیع دی جا رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود چین کی معیشت کی ترقی کی رفتار ایسی حیرت انگیز ہے کہ اس کا مقابلہ کرنا اور اس کے چیلنج سے نبردآزما ہونا ممکن نہیں لگ رہا۔ ابھی بھی وہاں پہ ایکسپریس وے سٹینڈرڈ کی سڑکوں پہ ستر ستر کلومیٹر (جی ہاں 70 کلومیٹر) طویل ٹریفک جام کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ بہت سے شہروں میں چھ چھ لیول کے انٹرچینجز ہونے کے باوجود رش کے اوقات میں گاڑیاں رینگ رینگ کر چلتی ہیں۔

اس سب میں ایک اہم پہلو چین کی آبادی اور رقبے کا سائز بھی ہے۔ اسی کی بجائے لیبیا جیسا ملک (جس کی آبادی کراچی کا نصف بھی نہیں ہے) اگر بارہ تیرہ فیصد سے بھی ترقی کرنے لگ جائے تو اس سے نبردآزما ہونا نسبتاً کم مشکل ہو گا۔ کیونکہ چند اہم سڑکوں کی توسیع اور چند انٹرچینج، فلائے اوورز کو بنا کے بڑھتی ٹریفک کو اکاموڈیٹ کیا جا سکے گا۔ ایک آدھ نیا ایئرپورٹ بن گیا اور پرانے میں ایک آدھ ایکسٹرا ٹرمینل اور رن وے بنا گیا تو وہ اگلے کئی عشروں کی ترقی کی ضروریات کو پورا کرتا رہے گا۔

اسی سب احوال کی وجہ سے چینی حکام اس بات کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح شرحٔ ترقی کو کنٹرول کیا جائے۔

میری معلومات کے مطابق دنیا میں اور کوئی ایسا ملک نہیں ہے جس کو ایسا چیلنج درپیش ہو کہ وہ شرحٔ ترقی کو کم کرنے کا سوچ رہا ہو۔


سنا ہے کہ پاکستان نے ایوب خان کے دور میں پینسٹھ کی جنگ سے پہلے کچھ سال دس فیصد کا گروتھ ریٹ دیکھا تھا۔ اس وقت شاید ٹریفک کا ایسا مسئلہ نہ ہوا ہو، لیکن منگلا، تربیلا ڈیم اور کئی ایئرپورٹس اسی ترقی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بنے تھے۔


نوٹ: میں نے کبھی اکنامکس نہیں پڑھی، کہیں غلطی ہو گئی ہو تو معافی کا خواستگار ہوں۔

2 تبصرے:

  1. Sukar hai kabhi nahi economics agar parhi hoti tu phir kya rang lati....

    جواب دیںحذف کریں
  2. جو ابھی تک پڑھ رہے ہیں انکے مطابق آپ ٹھیک پکڑ رہے ہین۔ خیر ہماری کیا اوقات۔صرف اتنا کہوں گا کہ یہ سنیریو ایل ایس ای پی والوں کے لیے بھی نیا ہے اور ای ۵۲ والوں کے لیے بھی۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر