اتوار، 10 جون، 2012

چیخوف کے افسانے سے

مندرجہ ذیل اقتباس روسی زبان کے شہرہ آفاق مصنف چیخوف کی ایک کہانی سے لیا گیا ہے۔ اس میں قید یا سزائے موت پر بحث کے دوران ایک آدمی کہتا ہے کہ قید بہرحال سزائے موت سے بہتر ہے۔ بات بڑھنے پر وہ آدمی دوسروں سے شرط لگاتا ہے کہ وہ بیس لاکھ کے عوض پندرہ سال تک قیدِ تنہائی جھیلنے کو تیار ہے۔
اس قید کے دوران وہ کسی انسان سے نہ رابطہ رکھ سکے گا، نہ کسی سے بات کر سکے گا۔ صرف اس کو کتابیں مہیا کی جائیں گی۔
جو بھی وہ چاہے یا جتنی بھی مانگے، ہر قسم کی کتاب اس کو مہیا کی جائے گی۔ اس کے بعد مصنف بتاتا ہے کہ کس طرح اس نے شروع میں سنسنی خیز اور رومانوی ناولز پڑھے، اس کے بعد فلسفے، تاریخ اور مختلف زبانوں کی کتب منگوائیں۔ اس کے بعد انجیل، مذہب اور مذہبی تاریخ کی کتب۔ اور اس کے بعد شیکسپیئر، بائرن، علمِ کیمیا، طبیعیات اور نجانے کس کس قسم کی کتب پڑھتا رہا۔ آخری سالوں میں اس کی کتب کی فرمائش تعداد اور تنوع میں اتنی بڑھ گئی کہ ان کتب کو مہیا کرنا ایک مسئلہ بن گیا۔ ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد اس کے خیالات کیسے بدلے، اس کا اظہار اس نے پندرھویں سال کے آخری دن ایک خط لکھ کر کیا جو کہ درج ذیل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

"کل بارہ بجے میں آزاد ہو جاؤں گا۔ مجھے دوسرے لوگوں سے رابطہ کرنے کی آزادی ہو گی۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں یہ بند کمرا چھوڑوں یا سورج کی روشنی دیکھوں، میں تم سے کچھ باتیں کہنا ضروری سمجھتا ہوں۔
بالکل صاف شفاف ضمیر کے ساتھ اور خدا کو جس کے قبضے میں میری جان ہے، حاضر و ناظر جان کر میں کہتا ہوں کہ مجھے آزادی سے کوئی مطلب نہیں، نہ ہی صحت و زندگی سے، یا ان چیزوں سے جو تمہاری کتابوں کے مطابق اچھی زندگی کی ضامن ہیں۔
پورے پندرہ برس سے میں مکمل توجہ کے ساتھ ارضی زندگی کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ میں نے نہ تو دنیا دیکھی اور نہ ہی انسانوں سے رابطہ رکھا۔ لیکن تمہاری کتابوں سے میں نے پرلطف شراب پی ہے، نغمے گائے ہیں، جنگلوں میں بارہ سنگھوں اور ہرنوں کا شکار کیا ہے، اور عورتوں سے محبت کی ہے۔ خوبصورتیاں جو بادلوں سی لطیف ہیں اور جنہیں تمہارے شاعروں اور ذہین لوگوں نے تخلیق کیا ہے، میرے پاس رات میں آتی رہی ہیں اور میرے کانوں میں ایسی دلآویز کہانیوں کی سرگوشیاں کرتی رہی ہیں، جن سے میرے دماغ میں ایک تلاطم برپا ہو گیا۔ تمہاری کتابوں میں میں نے کوہِ ایلبرز اور کوہِ بلانک کی چوٹیاں پھلانگی ہیں اور وہاں سے میں نے طلوعِ خورشید اور آسمان، سمندر اور پہاڑی چوٹیوں کو شام کے پھیلاؤ سے سنہرے اور قرمزی رنگ میں بدلتے دیکھا ہے۔ میں نے ان چوٹیوں سے اپنے سر پر موجود اس ہالے کا بھی نظارہ کیا ہے جو طوفانی بادلوں میں شگاف یا دراڑ ڈال دیتی ہے۔ میں نے ہرے بھرے جنگلات، کھیت، دریا، جھیلیں سب دیکھے ہیں۔
میں نے موسیقاروں کے گیت بھی سنے اور چرواہوں کی بانسریوں کی تانیں بھی۔ میں نے ان شیطانوں کے پر بھی چھوئے جو مجھ سے خدا کی بابت گفتگو کرنے آئے۔ تمہاری کتابوں میں میں خود کو اتھاہ گہرائیوں میں لے گیا، معجزات دکھائے، کشت و خون کیا، شہر جلائے، نئے مذاہب کی تبلیغ کی، پوری پوری مملکتیں فتح کیں۔
تمہاری کتابوں نے مجھے آگہی دی۔ وہ سب کچھ جو انسانوں کے مضطرب دماغ نے صدیوں میں سوچا اور تخلیق کیا، میرے دماغ کے چھوٹے سے قطب نما میں سما گیا۔ میں جانتا ہوں کہ میں تم سب سے زیادہ ذہین ہوں۔ میں تمہاری کتابیں ترک کرتا ہوں۔ میں ذہانت اور ان دنیاوی آسائشوں پر لعنت بھیجتا ہوں، یہ سب بے معنی اور کسی سراب کی طرح عارضی، کاذب اور فریب زدہ ہیں۔ ہر چیز ریت پہ نقش سے زیادہ کچھ حیثییت نہیں رکھتی۔ تم شاید مغرور، ذہین اور نفیس ہو، لیکن موت ایک دن تمہیں روئے زمین سے یوں مٹا دالے گی، گویا کہ تم فرش کھودنے والی کسی حقیر چوہیا کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور تمہاری نسل، تاریخ اور لافانی ذہانت یا تو جل جائے گی، یا پھر اس دنیا کے انجام کی طرح منجمد ہو جائے گی۔
تم نے تعقل کو چھوڑ کر غلط راستہ چن لیا ہے۔ تم جھوٹ کو سچ سمجھ بیٹھے ہو اور بدصورتی کو خوبصورتی۔ تم یقینا" حیران ہو گے کہ اگر حیرت انگیز واقعات کے نتیجے میں سیب اور نارنگیوں کے درختوں پر پھلوں کی جگہ مینڈک اور چھپکلیاں نکل آئیں، یا پھر گلاب کی معطر مہک کی جگہ پسینے سے شرابور گھوڑے کی بو آنے لگے۔ ویسے ہی میں تم پر حیران ہوں، جس نے زمین کا سودا جنت کے ہوتے ہوئے کر لیا۔ میں تمہیں سمجھنا نہیں چاہتا۔
اپنی بات عملی طور پر واضح کرنے کے لئے، اور یہ بتانے کے لئے کہ میں تم سے اور تمہاری بود و باش کے طریقوں سے کتنی نفرت کرتا ہوں، میں تمہارے بیس لاکھ جو کبھی میرے لئے جنت کے خواب کی طرح مسحورکن تھے، لعنت بھیجتا ہوں۔ خود کو رقم سے محروم کرنے کے لئے میں یہاں سے مقررہ وقت سے پانچ گھنٹے قبل چلا جاؤں گا اور میری طرف سے یہ معاہدہ ختم ہو جائے گا۔"

4 تبصرے:

  1. گمنامجون 13, 2012

    السلام علیکم سر جی آپ نے سیارہ پر بلاگ شامل نہیں کروایا

    http://www.urduweb.org/planet/

    اور نیٹ ورکڈ بلاگز پر بھی کروا لیں

    http://www.networkedblogs.com/

    جواب دیںحذف کریں
  2. شکریہ جناب۔
    لیکن سر جی کہنے والی یہ نامعلوم شخصیت ہے کون؟

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت ہی عجیب مگر دلچسپ ۔ ۔ ۔

    شکریہ دوست

    بلاگ اسپاٹ کے اردو سانچے کے لئے آپ یہاں تشریف لے جائیے ۔

    http://www.yasirnama.com/search/label/%D8%A8%D9%84%D8%A7%DA%AF%20%D8%B3%D9%BE%D8%A7%D9%B9%20%DA%A9%DB%92%20%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88%20%D8%B3%D8%A7%D9%86%DA%86%DB%92

    شکریہ
    ۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. میں نے اسی پیرائے پر لکھی گئی ایک کہانی پڑھی تھی جس میں ایک امیر کبیر آدمی نے شرط رکھی کہ میری تمام دولت اور جائیداد کا مالک وہ ہو گا جو میرے مرنے پر میری لاش کے ساتھ ایک ہفتہ قبر میں رہے ۔ ایک بہت مُفلس شخص نے وعدہ کر لیا اور پورا بھی کیا ۔ جب وکیل سب کچھ اُس کے حوالے کرنے لگا تو اس نے کہا " میں لعنت بھیجتا ہوں اس ساری دولت پر ۔ میں تو دو وقت کی سوکھی روٹی کا حساب کتاب نہیں دے سکتا ۔ اتنی زیادہ دولت کا کیسے حساب دوں گا "۔

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر