ہفتہ، 10 نومبر، 2012

اقبال کی ایک نظم اور ہمارے لئے پیغام

 انسان
منظر چمنستاں کے زيبا ہوں کہ نازيبا
محرومِ عمل نرگس مجبورِ تماشا ہے
رفتار کي لذت کا احساس نہيں اس کو
فطرت ہي صنوبر کي محروم تمنا ہے


تسليم کي خوگر ہے جو چيز ہے دنيا ميں
انسان کي ہر قوت سرگرم تقاضا ہے
اس ذرے کو رہتي ہے وسعت کي ہوس ہر دم
يہ ذرہ نہيں ، شايد سمٹا ہوا صحرا ہے
چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کي
يہ ہستي دانا ہے ، بينا ہے ، توانا ہے
علامہ اقبال


علامہ اقبال کی اس مختصر لیکن جامع نظم کا پہلا شعر ہمارے موجودہ حالات کے تناظر میں بالکل سچ محسوس ہوتا ہے۔ بلاشبہ آج ہم اسی مقام پہ ہیں کہ محرومیٔ عمل کی بدولت مجبورِ تماشا ہو چکے ہیں چاہے مناظر زیبا ہوں کہ نازیبا۔
اسی کے ساتھ ساتھ اس نظم کا آخری شعر بھی قابلِ غور ہے۔  یعنی مجبوریٔ تماشا ہونا بھی انسان کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے، ورنہ انسان تو ہیئتِ چمن کو بدل ڈالنے پہ بھی قاصر ہے، گر وہ چاہے تو۔ فرانس، چین، ایران میں یہی ہوا اور حال ہی میں تیونس، مصر وغیرہ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

ہم میں سے ہر کوئی آپ کو حالات پہ شکوہ کناں اور زید و بکر پہ تنقید کے بھاشن دیتا تو نظر آتا ہے، لیکن حالات کو سدھارنے کو کوئی ایک قدم چلنے کو بھی تیار نہیں ملے گا۔ ایک چھوٹی سی مثال لیجئے، مہنگائی کا رونا ہر کوئی روتا ہے۔ چینی اتنی مہنگی، ٹماٹر اتنے مہنگے، سیب اتنے مہنگے۔
پورا ملک یا پورا ضلع تو درکنار، اگر صرف ایک کالونی یا آبادی کے لوگ ہی طے کر لیں کہ صرف تین دن ٹماٹر یا سیب کوئی نہیں خریدے گا تو سب تاجر طبقے کی طبیعت صاف ہو جائے اور قیمتیں اپنی اصل اور اوقات پہ واپس آ جائیں۔

ہر کوئی اپنے اپنے حلقے کے سیاستدانوں کی برائیاں کرتا دکھائی دے گا۔ کبھی سوچا کہ اس کو ووٹ کہاں سے پڑتے ہیں۔ کوئی غریب یا سفید پوش اگر الیکشن میں کھڑا ہو ہی جائے تو اس غریب کو ووٹ دینے کے لئے اتنی زحمت کرنا پڑے گی کہ اس کی جانب سے ٹرانسپورٹ مہیا نہ ہو سکے گی اور اپنے انتظام پہ ووٹ ڈالنے جانا پڑے گا،،، لیکن مجال ہے جو کوئی ایسا کرنے کا سوچے بھی۔
تو پھر کیسے بدل پائے گا یہ سب؟ اس پہ سوچئے

مجبوریٔ تماشا ہماری تقدیر نہیں تھی، ہم نے خود اس کو اپنی تقدیر بنا لیا ہے۔

 چمنستاں کے یہ نازیبا اور ناگوار مناظر ہماری قسمت میں کسی اور نے نہیں لکھے، ہم نے خود اس کو قسمت میں لکھوایا ہے۔
مجرم میں اور آپ ہیں۔

انسان اگر اپنے گردوپیش کے سدھار کی ٹھان لے تو کون روک سکتا ہے اس کو۔

لیکن یہ ہو گا کیسے اور کرے گا کون۔۔۔۔۔۔

بقول کیفی اعظمی
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھیں، میں بھی اٹھوں، تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کھڑکی کوئی اسی دیوار میں کھل جائے گی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر