منگل، 25 دسمبر، 2012

غزل از حافظ شیرازی

ہنگامِ نو باہر گل از بوستان جدا
یا رب مباد ہیچ کس از دوستاں جدا
تازہ بہار کے آتے وقت پھول اپنے چمن سے جدا ہو جائے۔ اے خدا ایسا وقت کبھی نہ آئے کہ کوئی اپنے دوستوں سے جدا ہو جائے۔

بلبل بنالہ در چمن آمد بہ صبح دم
از وصلِ گل ہمی شود اندر خزاں جدا
صبح کے وقت چمن میں بلبل یہ فریاد کرتی ہوئی آئی کہ خزاں کے موسم میں وہ پھول کے وصل سے جدائی کا شکار ہو رہی ہے۔

دنیا ست باغِ کہنہ و انساں چوں نو گلند
ہریک ز شاخِ عمر کند باغباں جدا
یہ دنیا ایک انتہائی پرانا باغ ہے اور اس میں انسان ایک تازہ پھول کی طرح ہے، جو چند روز کے لئے کھِلتا ہے، مہکتا ہے اور بالآخر باغبان اسے عمر کی شاخ سے توڑ لیتا ہے۔

افسوس کیں حیاتِ جہاں رایگاں گزشت
افسوس دیگر آنکہ شود تن ز جاں جدا
افسوس کہ اس دنیا کی زندگانی یونہی بیکار ہی گزر گئی۔ دوسرا افسوس اس بات کا ہے کہ جسم سے جان بھی جدا ہو جائے گی۔

بسیار خفتہ اند دریں خاک سیم تن 
شاہاں نو عروس بسے از جہاں جدا
اس مٹی میں نجانے کتنے حسین اور چاندی جیسے تن بدن رکھنے والے ہمیشہ کی نیند سوئے پڑے ہیں۔ بڑے بڑے نامور بادشاہ، نئی نویلی دلہنیں (اور دولہے) اس دنیا سے جدا ہو کے یہاں جا بسے ہیں۔

ہشدار و پائے برسرِ ایں مردگان منہ
تنہا بخاک خفتہ و از خانماں جدا
ہوشیار اور خبردار: ان مرے ہوئے لوگوں پر تو اپنا پاؤں مت رکھ جو اپنے گھروں اور خاندان سے جدا ہو کر تنہا اس خاک میں جا سوئے ہیں۔

ترکِ ہواؤ حرص بکن حافظ آ کنوں
بہر وصالِ دوست شو از ایں و آں جدا
اے حافظ اب تو اس دنیا کی خواہشات اور اس کے لالچ کو بالکل ترک کر دے۔ اگر تو اپنے محبوبِ حقیقی سے وصل کا خواہاں ہے تو تجھے چاہئے کہ ایں و آں (یعنی اِس اور اُس) دونوں سے کنارہ کشی کر لے۔

2 تبصرے:

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر