مولانا ابوالکلام آزاد نے قیامِ پاکستان سے بھی پہلے اپنے ایک انٹرویو میں بہت سی باتوں میں ایک بات یہ بھی کہی تھی کہ برِصغیر کا مسلمان تاجر اور صنعتکار طبقہ نااہل ہے اور اوپن مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسی لئے ان کی تمام تر ہمدردیاں اور وفاداریاں تحریکِ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہیں، تاکہ یہ نئی مملکت میں ملک اور مذہب کے نام پہ اپنی دکان چمکا سکیں۔
آج اگر دیکھا جائے تو مولانا صاحب کی یہ بات غلط محسوس نہیں ہو گی۔ ہاں میں اس میں ایک مزید اضافہ کرنا چاہوں گا کہ ہمارا تاجر اور صنعت کار طبقہ نااہل کے ساتھ ساتھ غیرمعمولی لالچی بھی ہے۔
آج اگر دیکھا جائے تو ہر روز آپ کو ایسے بیانات یا مطالبات پڑھنے کو ملیں گے کہ درآمدی اشیاء پر پابندی لگائی جائے، ملکی مصنوعات پہ سبسڈی دی جائے، ٹیکس میں ریلیف دی جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔
وجہ اس کی وہی کہ اگر دوسرے ملک سے مصنوعات درآمد ہونا شروع ہو گئیں تو ہمارے تاجر و صنعتکار جن چیزوں کو مہنگے داموں بیچ رہے ہیں اور وہ بھی غیرمعیاری کوالٹی کے ساتھ، ان کو کون پوچھے گا۔
ایک اہم مثال امپورٹڈ گاڑیوں کی ہے۔ ہمارے ملک میں جن گاڑیوں کو بنانے کا دعوٰی کیا جاتا ہے، وہ زیادہ تر پرزے درآمد کر کے اسمبلنگ سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور ان کا معیار اتنا پست ہے کہ شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں اتنی غیرمعیاری اور سہولیات و حفاظتی اقدامات سے عاری گاڑیاں فروخت ہوتی ہوں۔ لیکن ملکی صنعت کے نام پہ اس طبقے نے ایسی اجارہ داری بنا رکھی تھی کہ لوگوں کے پاس کچھ اور آپشن تو تھی نہیں، لہٰذا لوگ انہی کو خریدنے پہ مجبور تھے۔ جیسے ہی حکومت نے پانچ سال پرانی گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دی تو عوام کو اندازہ ہوا کہ جس کوالٹی کی گاڑی ہمارے لوکل اسمبلر پندرہ سولہ لاکھ میں بیچ رہے ہیں، اس سے کہیں بہتر گاڑی تو آٹھ دس سال میں امپورٹڈ گاڑی کی شکل میں میسر آ رہی ہے۔ بھلے وہ گاڑی پانچ سال پرانی ہے، لیکن اس کے باوجود لوکل گاڑی نئی ہونے کے باوجود اس سے کہیں کمتر ہے۔ اس سے یہ ہوا کہ لوکل اسمبلر کی گاڑیوں کی فروخت میں خاصی کمی واقع ہوئی۔ اور یقیناً انہوں نے فیصلہ ساز حلقوں پہ کافی "مال" خرچ کیا ہو گا کہ حکومت نے امپورٹڈ گاڑیوں پہ ایک بار پھر پابندی لگا دی۔
اسی طرح کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ آجکل چائنہ سے درآمد شدہ بے شمار مال مارکیٹس میں نظر آتا ہے۔ آپ کسی ایسی چیز کی قیمت چیک کر سکتے ہیں جو ملک میں بھی بنتی ہو اور چائنہ کی بنی بھی دستیاب ہو، آپ کو ان کی قیمت میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ مثلا" جو کٹلری چائنہ کی چار سو روپے مین مل رہی ہو، وہی وزیرآباد والی ہزار پندرہ سو میں ملے گی۔ اس پہ سوال کیا جائے تو ہمارے ہاں سے ایک رٹا رٹایا جواب ملے گا کہ ہمارے ہاں بجلی مہنگی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ ایک چیز بیجنگ یا شنگھائی سے چلی ہے اور کتنے ہاتھوں سے نکلی ہے، ٹرانسپورٹیشن کا اتنا خرچ الگ سے، لیکن پھر بھی چار سو میں مل رہی ہے، تو کیا چھ چھریاں یا چمچے بنانے پہ آپ کی ایک ہزار کی بجلی خرچ ہو گئی ہے۔
وجہ بس اتنی سی ہے کہ ہمارے تاجر اور صنعت کار طبقے میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس پائی جاتی ہے۔ لیکن نااہلیت ایسی ہے کہ جہاں ان کو دنیا سے مقابلہ کرنا پڑ گیا، وہیں یہ بھوکوں مرنے لگیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ بھارت کے ساتھ آزادانہ تجارت کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ اسی طبقے کے لگائے جانے والے "مال" کی وجہ سے بہت سے مذہبی قسم کے عناصر (حافظ سعید، زید حامد، قاضی حسین احمد ٹائپ کا) بھی مخالفت کا علم اٹھائے دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب اگر عوام الناس کے نکتۂ نظر سے دیکھا جائے تو ان کو اوپن تجارت میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ کیونکہ مارکیٹ میں مقابلہ جتنا زیادہ ہو گا، ان کو بہتر سے بہتر معیار کی چیزیں کم سے کم نرخ پہ میسر آ سکیں گی۔
اسی بات کو ایک اور اینگل سے بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آزادانہ تجارت کی صورت میں ملکی مارکیٹ بھارتی مصنوعات سے بھر جائے گی۔ حالانکہ عقل استعمال کی جائے تو سامنے کی بات ہے کہ بھارتی تاجروں کو اگر اٹھارہ کروڑ افراد کی مارکیٹ ملے گی تو آپ کو ایک سو پچیس کروڑ کی مارکیٹ میسر ہو گی۔ اپنی اشیا کا معیار بہتر کریں، کمپیٹیٹو قیمتیں رکھیں تو پاکستان تاجروں، صنعت کاروں کو ایک بہت بڑی مارکیٹ مل سکتی ہے۔
یہی حال فلم انڈسٹری کا ہے۔ عموما" کہا جاتا ہے کہ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کی فلمیں نمائش ہونے لگیں تو بھارتی کلچر چھا جائے گا۔ دیکھا جائے تو بھارتی فلمسازوں کو پاکستانی سینما مارکیٹ کی زیادہ ضرورت نہیں ہے، کیونکہ پاکستان میں بمشکل ایک ڈیڑھ سو سینما بچے ہیں، جبکہ بھارت میں ان کی تعداد تیس سے چالیس ہزار تک ہے یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ ہمارا فلمساز اگر اچھی فلم بنانے کا دماغ اور ارادہ رکھتا ہو تو بھارتی مارکیٹ میں بے شمار بزنس کما سکتا ہے۔ جبکہ بھارتی فلمساز یہاں سے کیا ہی کما پائے گا۔
اسی جیسی بے شمار باتیں اور مثالیں اور بھی ہیں۔ ان پہ غور کیا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فائدہ کس کا ہے، اور نقصان کس کا۔
حاشیئے میں میرا نام درست کر لیجئے ۔ احمد نہیں ہے ۔ اجمل ہے
جواب دیںحذف کریںکسی حد تک تاجر سچے بھی ہوں گے ۔ اسے سمجھنے کیلئے ہمارے پیداواری اور ٹیکس نظام کا مطالعہ ضروری ہے ۔
پرویز مشرف دور میں ملکی صنعتی پیداوار پر ٹیکس بہت زیادہ کر دیئے گئے جو سب ملا کر کم از کم 60 فیصد بنتے ہیں اور امریکا کی تابعداری میں درآمدی مال پر ٹیکس کم کر کے زیادہ سے زیادہ 30 فیصد کر دیئے گئے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی بجلی کی بندش ایک عذاب بن چکا ہے ۔ پھر حکمرانوں اور ان کے چہیتے اہلکاروں کے اخراجات الگ ہوتے ہیں ۔ صنعتکار کیا کرے
کاروں کی صنعت کی کارکردگی بہت ہی حوصلہ شکن ہے ابھی تک صرف اسمبلنگ ہو رہی ہے ۔ اگر حکمران چاہتے تو اب تک کار کا سب کچھ ملک میں بننا شروع ہو جاتا لیکن انہیں پرواہ نہیں کیونکہ وہ تو بڑی بڑی کاریں درآمد کرتے ہیں
تاجر تو سستا مال درآمد کر کے ملک میں بنے مال کی نسبت دو گنا منافع کما رہے ہیں ۔
جس طرح کا معاہدہ کیا گیا ہے بھارت سے تجارت کرنے سے پاکستان کو نقصان ہو گا ۔ ہونا یہ چاہیئے کہ جتنے ڈالر کا سامان بھارت پاکستان سے درآمد کرے اتنا ہی پاکستان بھارت سے درآمد کرے ۔ آپ شاید نہیں جانتے کہ بھارت کا گھٹیا معیار کا مال پاکستان میں ڈھیر کر دیا جائے گا جیسا بینظیر بھٹو کے دور میں آلو کی بھارت سے درآمد میں ہوا تھا زیادہ تر آلو خراب ہو جانے کے باعث یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانہ پڑا تھا
شکریہ افتخار بھائی۔ اتفاق سے آج ہی غلطی کا ادراک ہوتے ہی میں آپ کا نام درست کر ہی چکا تھا۔ غلطی پہ معذرت۔
جواب دیںحذف کریںآپ نے آخری پیرا میں جو کہا کہ بھارت کا گھٹیا معیار کا مال مارکیٹ میں ڈھیر کر دیا جائے گا، تو اس کا مقابلہ تو بہت آسان ہے۔ یعنی ملکی مصنوعات اچھے معیار کی ہوں۔
سوال آسان سا ہے کہ اگر ایک چیز بیجنگ، شنگھائی، بنگلور یا ممبئی سے چل کے پاکستان آتی ہے تو اس کی بہ نسبت سیالکوٹ، لاہور یا فیصل آباد میں بننے والی چیز کو تو کم قیمت ہونا چاہئے اور معیار بھی برابر یا قریب تر ہو تو ملکی مصنوعات ہی مارکیٹ میں جگہ پا سکیں گی۔
لیکن اصل میں ایسا ہے نہیں۔
میں کاروں کی مثال پہلے ہی دے چکا ہوں۔ اس کے علاوہ ایک شاندار کیس ٹی آئی پی کا ہے۔ شاید آپ جانتے ہی ہوں گے کہ کچھ سال قبل تک پاکستان میں گھر میں لینڈ لائن ٹیلیفون لگوانے کے جو چارجز تھے، ان میں ٹی آئی پی کا بنا ٹیلیفون سیٹ خریدنے کے پیسے بھی ہوتے تھے۔ وہ پھسڈی اور ہر قسم کی سہولیات سے عاری سیٹ دو ہزار روپے سے اوپر کا بیچا جاتا تھا۔
اور میں شرط لگا کے کہہ سکتا ہوں کہ ٹی آئی پی کے اس طرح کے سیٹس کی وہی واحد سیل تھی۔ یعنی حکومتی جبر کی بدولت جو مجبوراً خریدنا پڑ گیا۔
اس کی نسبت چائنہ کے بنے اچھے خاصے سیٹ ڈیڑھ سو روپے تک کے نرخ میں بھی دستیاب ہونے لگے تو اب ٹی آئی پی کے سیٹ کو کون خریدے گا۔
بات وہی کہ جہاں قیمت اور معیار کی بات آئے گی، ہماری زیادہ تر انڈسٹری اس میں شدید ترین نااہل نظر آئے گی۔
تاجر طبقے کے بارے میں آپ کے خیالات بالکل صحیح ہیں۔ باقی رہے اسل ولن تو انکے بارے میں بول بول کر گلا بیٹھ چکا ہے۔۔ نعرہِ افسوس
جواب دیںحذف کریںTruly pointed out. Instead of working in competitive market they try to gag the foreign trade and its horrible but after all public will suffer. As far as the matter of religious leaders is concerned they are doing their business in the most professional way and no other country can defeat them.
جواب دیںحذف کریں