جمعہ، 12 جولائی، 2013

ٹیسٹ کرکٹ پہ حکمرانی کی مسلسل جنگ ۔ ایشیز سیریز

ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز تقریباً سوا سو سال پہلے ہوا تھا اور ابتدا سے ہی کرکٹ کے بانی دو ممالک یعنی آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان کانٹے دار اور دلچسپ کرکٹ کے مقابلے دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔ دونوں ٹیموں کے مابین ایشیز کے نام سے مشہور یہ ٹیسٹ سیریز ہر دو سال بعد تقریباً باقاعدگی سے ہوتی ہے۔ اگرچہ کہ رفتہ رفتہ کرکٹ کھیلنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ اور ان کی کرکٹ کے معیار میں بہتری آتی چلی گئی لیکن اس کے باوجود انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ کرکٹ کی جنگ کی اہمیت اور دلچسپی میں کسی دور میں کمی واقع نہ ہوئی۔
اور ابھی بھی اس سیریز کا یہ مقام ہے کہ اس کے فاتح کو ٹیسٹ کرکٹ کے حکمران کا سا درجہ حاصل ہے اور اس کو جیتنے کی خاطر دونوں ٹیمیں سر توڑ کوشش کرتی ہیں۔

اس سیریز کا نام ایشیز کیسے پڑا؟ یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ 1882 میں انگلینڈ کے اوول گراؤنڈ میں ایک ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کو شکست ہوئی تو وہاں کے مقامی میڈیا نے اس طرح کے تبصرے کئے کہ انگلینڈ میں کرکٹ کا انتقال ہو چکا ہے اور اس کے جسم کو جلا کے اس کی راکھ کو آسٹریلین ٹیم اپنے ملک لے جائے گی۔ اس کے بعد اگلی سیریز آسٹریلیا میں ہونی تھی تو جب انگلینڈ کی ٹیم اس دورے کی تیاری کر رہی تھی تو یہ کہا جاتا تھا کہ انگلینڈ اس راکھ یعنی ایش کو واپس لے آنے کے عزم سے جا رہا ہے۔ اور اسی دورۂ آسٹریلیا کے دوران انگلینڈ ٹیم کو ایک برتن میں راکھ پیش بھی کی گئی جو کہ کرکٹ کی وکٹس یا بیلز کو جلا کے بنائی گئی تھی۔ اگرچہ کہ وہ راکھ اور اس کا برتن اب انگلینڈ کے ایک کرکٹ میوزیم میں رکھے جا چکے ہیں لیکن کچھ عرصے سے اس کا ایک نمونہ جیتنے والی ٹیم کو دیا جاتا ہے جس کو ایک طرح سے ٹرافی کی سی حیثییت حاصل ہو گئی ہے۔

ایشیز سیریز کھیلے جانے کا فارمیٹ کچھ اس طرح کا ہے کہ ہر چار سال میں دو بار یہ سیریز کھیلی جاتی ہے۔ جس میں سے ایک بار انگلینڈ میں گرمیوں کے سیزن میں ہوتی ہے اور ایک بار آسٹریلیا میں وہاں کے گرمی کے سیزن میں ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ابھی تک مجموعی طور پر چونسٹھ سیریز کھیلی جا چکی ہیں، جن میں سے اکتیس آسٹریلیا نے جیتی ہیں جبکہ اٹھائیس میں انگلینڈ کامیاب ہوا اور باقی کی پانچ سیریز برابر رہی ہیں۔

ایشیز سیریز میں عروج و زوال کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ انیسویں صدی کے اختتام تک انگلینڈ کا ہی پلا بھاری رہا۔ لیکن پہلی جنگِ عظیم سے پہلے اور اس کے بعد آسٹریلیا نے انگلینڈ کی ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا اور اپنی فاسٹ باؤلنگ کی جوڑی کی بدولت اگلی تیرہ میں سے نو سیریز میں کامیابی حاصل کی۔ 1926 میں انگلینڈ کی ٹیم ایک میچ میں کامیابی کی بدولت سیریز پھر سے جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
سن 1932 کی سیریز والی آسٹریلین ٹیم کی بیٹنگ لائن اَپ کو کرکٹ کی تاریخ کی مضبوط ترین بیٹنگ لائن بھی کہا جاتا ہے جس میں ڈان بریڈمین اور بل پونسفورڈ جیسے عظیم بیٹسمین شامل تھے۔ اسی کا مقابلہ کرنے کے لئے انگلینڈ کی ٹیم نے ایک خاص لائن پہ باؤلنگ کرنے کی پلاننگ کی جس کی وجہ سے اس سیریز کو باڈی لائن سیریز بھی کہا جاتا ہے۔ اسی باڈی لائن سٹریٹجی کی وجہ سے تاریخ کی اس دلچسپ ترین سیریز کا نتیجہ انگلینڈ کے حق میں رہا۔ لیکن اس سٹریٹجی کی وجہ سے اتنا ہنگامہ برپا ہوا کہ اس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہونے لگے جس کی وجہ سے ڈپلومیٹک چینل استعمال کر کے معاملہ ٹھنڈا کرایا گیا اور اس کے بعد سے ٹیسٹ کرکٹ میں لیگ سائیڈ پہ فیلڈرز کی تعداد متعین کر دی گئی۔ لیکن انگلینڈ کے کپتان ڈگلس جارڈین کا ایک بیان بہت مشہور ہوا کہ "میں اپنے ملک سے چھ ہزار کلومیٹر سفر کر کے یہاں دوست بنانے نہیں آیا، بلکہ میرا مشن صرف اور صرف ایشز جیتنا ہے"۔

اس کے بعد کا دور ڈان بریڈمین کا دور ہے۔ اس دور میں آسٹریلیا کا پلا نسبتاً بھاری رہا۔ 1934 سے لے کر 1951 تک ہونے والی چھ سیریز میں سے پانچ میں آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کی۔ جبکہ ایک سیریز ڈرا رہی۔ اس کے بعد انگلینڈ کی ٹیم کے عروج کا دور آیا جس کے پاس اس دور میں عظیم کھلاڑیوں کا ایک دستہ موجود تھا جن میں سر لین ہٹن، کولن کاؤڈرے، ڈینس کامپٹن جیسے بیٹسمین تھے تو جم لیکر، فریڈی ٹرومین اور برائن سٹیتھم جیسے شہرہ آفاق باؤلر بھی تھے۔ انہی کی بدولت انگلینڈ کی ٹیم لگاتار تین سیریز جیتنے میں کامیاب رہی۔ لیکن اس کے فوراً بعد فتح کی دیوی انگلینڈ سے چودہ سال تک کے لئے روٹھ گئی جب اگلی چھ سیریز میں سے تین برابر رہیں اور تین میں آسٹریلیا جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔ 1957-58 کے بعد انگلینڈ کو اگلی فتح 1971 میں نصیب ہوئی جب جیفری بائیکاٹ، جان سنو اور جان ایڈریچ جیسے بڑے ناموں کی بدولت انگلینڈ نے آسٹریلیا میں دو صفر سے سیریز جیت لی۔
تاہم اس کے بعد کی تین سیریز میں سے ایک ڈرا رہی اور دو آسٹریلیا نے جیتیں۔


کرکٹ میں 1977 سے 1987 تک کا دور شاید انگلینڈ کے لئے سنہرا ترین دور رہا جس دوران ان کو ائن بوتھم، ڈیوڈ گاور اور گراہم گوچ جیسے بڑے کھلاڑیوں کی خدمات حاصل رہیں۔ اس عرصے میں ہونے والی چھ ایشیز سیریز میں سے پانچ میں انگلینڈ کامیاب رہا جبکہ ایک سیریز آسٹریلیا کے نام رہی۔ لیکن اس کے بعد فتح کی دیوی انگلینڈ سے ایسی روٹھی کہ اگلی آٹھ سیریز آسٹریلیا جیتنے میں کامیاب رہا۔ اس میں ایک وجہ تو انگلینڈ کی ٹیم میں اچھے کھلاڑیوں کی بتدریج کمی تھی لیکن بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ اسی عرصے میں آسٹریلیا کے پاس عظیم کھلاڑیوں کی ایک ایسی فوج موجود رہی جنہوں نے ایک طویل عرصے تک دنیائے کرکٹ کی حکمرانی کا تاج آسٹریلیا کے سر پہ سجائے رکھا۔ انہی کی بدولت آسٹریلیا نے نہ صرف ٹیسٹ کرکٹ بلکہ ون ڈے میں بھی کامیابیوں کے ریکارڈ قائم کئے۔ ان شہرہ آفاق ناموں میں ایلن بارڈر، ڈین جونز، میکڈرمٹ، گلین میکگرا، شین وارن، مارک ٹیلر، سٹیو واہ، مارک واہ، رکی پونٹنگ، ائن ہیلی، ایڈم گلکریسٹ، میتھیو ہیڈن، جسٹن لینگر، جیسن گلسپی، ڈیمن مارٹن وغیرہ شامل ہیں۔
اس دور میں آسٹریلیا کے عروج کا یہ عالم رہا کہ یہ آٹھ کی آٹھ سیریز مکمل یکطرفہ رہیں اور ان آٹھوں سیریز میں سے کسی لمحے بھی انگلینڈ کی کامیابی کا چانس تک نہ پیدا ہوا۔
 
ایشیز سیریز 2005
اس سیریز کو تاریخ کی عظیم ترین اور دلچسپ ترین سیریز قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سیریز انگلینڈ میں منعقد ہوئی تھی۔ جس میں آسٹریلیا کے پاس تقریباً سب بڑے بڑے نام موجود تھے لیکن انگلینڈ کی ٹیم میں ایک بنیادی تبدیلی یہ تھی کہ ان کے نام کی حد تک بڑے بڑے کھلاڑی جو کہ کسی بھی ایشیز سیریز میں کامیابی نہ دلوا سکے، جیسے مائیکل آتھرٹن، ناصر حسین، ایلک سٹیورٹ، ڈیرن گف، اینڈی کیڈک، گراہم تھارپ، مارک بوچر وغیرہ، یہ سب ٹیم سے باہر یا ریٹائر ہو چکے تھے، جبکہ نوجوان اور پُر عزم کھلاڑیوں کا ایک دستہ انگلینڈ کی ٹیم میں شامل ہو چکا تھا جن میں اینڈریو فلنٹوف، کیون پیٹرسن، اینڈریو سٹراس، سائمن جونز، سٹیو ہارمیسن، میتھیو ہوگارڈ وغیرہ شامل تھے۔ اس سیریز کا پہلا میچ تو آسٹریلیا نے انتہائی یک طرفہ میچ کے بعد جیت لیا اور نقاد اور میڈیا یہ کہنے لگے کہ اس سیریز میں نوجوان انگلش ٹیم کو بڑھا چڑھا کے پیش کیا گیا ہے جبکہ یہ آسٹریلیا کے مقابلے میں سکول بوائز کی ٹیم ہے۔ لیکن اسی ٹیم نے اگلے چار میچز میں شاندار کھیل پیش کیا۔ یہ چاروں میچ اتنے زیادہ سنسنی خیز رہے کہ تقریباً ہر سیشن میں میچ اور سیریز کا پانسہ پلٹتا نظر آتا۔ لیکن اینڈریو فلنٹوف کی غیرمعمولی آل راؤنڈ پرفارمنس کی وجہ سے انگلینڈ کی ٹیم ان چار میں سے دو میچ جیتنے میں کامیاب ہو گئی۔ آخری میچ جیت کر آسٹریلیا یہ سیریز برابر کر سکتا تھا، لیکن اس میچ میں کیون پیٹرسن نے آسٹریلین ٹیم کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا اور آسٹرلین باؤلنگ کا بھرکس نکال دیا۔ یوں اس نوجوان ٹیم نے سولہ سال بعد ایشیز کا تاج انگلینڈ کے سر پہ سجا دیا۔ اس کامیابی کا انگلینڈ میں اس قدر جشن منایا گیا کہ سڑکوں پہ لوگ خوشی سے ناچنے لگے اور ملکہ برطانیہ نے بھی انگلینڈ کی ٹیم سے ملاقات کی اور ان کو خطابات سے نوازا۔ دوسری جانب آسٹریلیا کی دلبرداشتہ ٹیم کے کچھ کھلاڑی تو اسی سیریز میں ہی ریٹائر ہو گئے اور کچھ دوبارہ کبھی سلیکٹ نہ ہوئے جن میں جسٹن لینگر، مائیکل کاسپروچ وغیرہ شامل ہیں۔

ایشیز 2006,07
گزشتہ سیریز جیتنے کے بعد انگلینڈ کو اگلے ہی سال آسٹریلیا جا کے شکست خودرہ ٹیم کے غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑا اور وہ آسٹریلیا کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ آسٹریلیا نے ساٹھ سال سے بھی زیادہ عرصے بعد انگلینڈ کو پانچ صفر سے ہرایا اور وائٹ واش کر دیا۔ یہ سیریز باؤلنگ کی عظیم ترین جوڑی شین وارن اور گلین میکگرا کی آخری ٹیسٹ سیریز بھی ثابت ہوئی اور اس کے اختتام پہ دونوں باؤلر ریٹائر ہو گئے۔

ایشیز 2009
ایک بار پھر آسٹریلیا کی ٹیم رکی پونٹنگ کی قیادت میں فتح کی امید لئے انگلینڈ کی سرزمین پہ اتری۔ اس بار انگلینڈ کی ٹیم کے حالات اچھے نہ تھے۔ 2005 والی سیریز کی شاندار باؤلنگ لائن اَپ میں سے زیادہ تر زخمی یا ریٹائر ہو چکے تھے جبکہ باقی ٹیم بھی اچھے ردھم میں نہ تھی۔ تاہم اس ناتجربہ کار ٹیم نے آسٹریلیا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انتہائی دلچسپ سیریز دیکھنے کو ملی۔ اس سیریز نے بھی سنسنی خیزی میں 2005 والی سیریز کی یاد تازہ کرا دی۔ ہر سیشن میں میچ کا رخ بدلتا دکھائی دیتا۔ تاہم فتح کی دیوی انگلینڈ کی ٹیم پہ ایک بار پھر مہربان رہی اور وہ یہ سیریز دو ایک سے جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس بار اس جیت میں زیادہ اہم حصّہ بیٹنگ لائن کا رہا۔ جس میں انگلینڈ کے کپتان اینڈریو سٹراس، پال کولنگ ووڈ اور جوناتھن ٹراٹ کا حصّہ نمایاں رہا، جبکہ باؤلنگ میں سپنر گریم سوان اور فاسٹ باؤلر سٹؤرٹ براڈ نمایاں رہے۔
ایشیز 2010
یہ سیریز آسٹریلیا کی سرزمین پر کھیلی گئی، تاہم اس بار انگلش ٹیم کا پلہ واضح طور پہ بھاری دکھائی دیا۔ ایلسٹر کک، جوناتھن ٹراٹ، پیٹرسن اور ائن بیل نے رنز کے ڈھیر لگائے تو دوسری جانب اینڈرسن اینڈ کمپنی نے کینگروز بلے بازوں کے چھکے چھڑائے۔ یوں انگلینڈ نے تین ایک کے مارجن سے یہ سیریز جیتی۔ اہم بات یہ رہی کہ انگلینڈ کی تینوں کامیابیاں ایک اننگز کے فرق سے تھیں۔

ایشیز 2013
اس وقت بھی انگلش سرزمین پہ کرکٹ کی یہ دلچسپ جنگ جاری ہے۔ بظاہر انگلینڈ کا پلہ کاغذوں میں بھاری ضرور لگتا ہے، تاہم آسٹریلیا کو آسان حریف نہیں سمجھا جا سکتا۔ انگلینڈ کی خواہش ہو گی کہ اس کی کامیابیوں کا تسلسل جاری رہے جبکہ آسٹریلیا کی ٹیم ایک بار پھر سے شکست کا انتقام 2006 کی طرز پہ لینے کی خواہش مند ہو گی۔ اس دلچسپ سیریز کا کیا نتیجہ سامنے آئے گا؟ کونسی ٹیم فتح یاب ہو گی؟ دونوں ٹیموں کی تیاری اور موجودہ فارم کو دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ اس کا جواب صرف وقت ہی دے سکے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر