جمعہ، 21 جون، 2013

انیس سو چوراسی از جارج آرویل

1984 by George Orwell
یہ ایک غیرمعمولی ناول ہے، جس کو نقاد حضرات بیسویں صدی میں لکھے گئے فکشن کی بہترین کتابوں میں شمار کرتے ہیں۔

جارج آرویل نے یہ ناول انیس سو پچاس میں لکھا تھا۔ ناول کی سیٹنگ اس وقت کے حساب سے مستقبل یعنی انیس سو چوراسی کا زمانہ ہے۔ اور مزید سیٹنگ کچھ یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم یا کسی بڑی سی جنگ و جدل کے بعد عالمی منظرنامہ کچھ یوں ہے کہ دنیا میں تین ہی بڑے بڑے ملک ہیں، جن کو سپر سٹیٹس کہا گیا ہے۔ ان کے نام یہ ہیں

یوریشیا
ایسٹیشیا
اوشیانا

ناول کا مرکزی کردار اوشیانا کا باشندہ ہے۔ اوشیانا بنیادی طور پہ مغربی یورپ (انگلینڈ، فرانس وغیرہ) اور امریکہ سے مل کے بنا ہے۔ اور ناول کے مطابق یہاں انگلش سوشلزم یعنی اینگساک کا نظام قائم ہے۔


یہ تو ہوئی ناول کی سیٹنگ، لیکن سب سے زیادہ دل ہلا دینے والی جو بات اس میں بیان کی گئی ہے کہ کیسے یہ ریاست اپنے باشندوں کی دماغی دھلائی یعنی برین واشنگ کا سامان کرتی ہے۔ ریاست میں منسٹری آف ٹرتھ کے نام سے ایک بہت بڑا ادارہ قائم ہے جو کہ صرف اور صرف تاریخ اور حالات و واقعات کو حسبِ ضرورت تبدیل کرنے کا کام سر انجام دیتا ہے۔ جیسے ایک منظرنامہ یوں ہے کہ اوشیانا ہمیشہ دوسری سٹیٹس میں سے ایک کے ساتھ اتحاد کر کے دوسری کے خلاف جنگ میں مصروف ہوتا ہے۔ اور یہ اتحاد اور جنگ والی ریاستیں ہر کچھ سال بعد بدل جاتی ہیں۔ یعنی اگر ابھی ایسٹیشیا کے ساتھ مل کر یوریشیا کے خلاف جنگ ہے تو ہو سکتا ہے کہ اگلے سال یوریشیا کے ساتھ مل کر ایسٹیشیا کے خلاف جنگ ہونے لگے۔ ایسے وقت میں منسٹری آف ٹرتھ فوری طور پہ تمام کتابوں میں تبدیلی کر کے اس طرح کی بات شامل کر دیتا ہے کہ اوشیانا ہمیشہ ہمیشہ سے اس ریاست کے ساتھ جنگ کر رہا ہے۔ ریاست کے سربراہ نے گزشتہ کچھ عرصے میں حریف ریاست کے خلاف جو بیانات دیئے ہوتے ہیں، ان کی تمام فائلز میں دشمن بدل جانے کے بعد فوری طور پہ تبدیلی کر کے دوسری ریاست کا نام ڈال دیا جاتا ہے۔

اسی طرح جنگی بحران کی وجہ سے اگر کسی چیز کے راشن سکیل میں کمی کر دی جائے تو فوری طور پہ ماضی کے تمام ریکارڈ میں ایسی تبدیلی کر دی جائے گی کہ موجودہ کم شدہ سکیل اضافہ شدہ نظر آئے۔
الغرض اس طرح کی بہت سی مثالیں اور واقعات اس ناول میں بیان کئے گئے ہیں کہ کیسے ریاستی سطح پہ سچ کا کلا دانستہ طور پہ گھونٹا جاتا ہے۔

المناک بات یہ ہے کہ اس سے ملتا جلتا کام ہمارے ہاں بھی ہوتا رہتا ہے۔ خصوصا" نصابی کتابوں میں جھوٹ کو ایسا بھر بھر کے ٹھونسا جاتا ہے کہ جب تک بندہ اس جھوٹ کو پڑھ کے گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ہو چکتا ہے، اس کو اس پہ ایسا یقینِ کامل ہو چکا ہوتا ہے کہ اس کے خلاف ہر بات کو مکمل جھوٹ اور ملک و ملت و مذہب سے غداری قرار دینے میں ایک منٹ نہیں لگاتا۔

ہمارے ایک گمنام ٹائپ لیکن پڑھے لکھے شخص کے کے عزیز نے مرڈر آف ہسٹری کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، جس میں اسی المیے کی جانب توجہ دلائی ہے۔

جاوج آرویل کا ناول انیس سو چوراسی اور کے کے عزیز کی مرڈر آف ہسٹری میں کافی کچھ مشترک ہے۔ دونوں کتابیں پڑھ لی جائیں تو رونگٹے بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔


انیس سو چوراسی کے بارے میں مزید یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ کوئی تھرلر قسم کا ناول نہیں ہے، بلکہ کافی بور اور خشک قسم کی چیز ہے۔ اس لئے اس کو پڑھنا کافی دشوار بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ناول زیادہ ضخیم نہیں ہے بلکہ صرف سو کے لگ بھگ صفحات پہ مشتمل ہے۔

جارج آرویل کے اس ناول کے مخصوص اندازِ بیاں اور اس میں بیان کیا گیا فلسفے نے ادب، سیاست اور سوشلزم وغیرہ کی دنیا میں ایسی شہرت پائی کہ "آرویلیئن" کے نام سے ایک اصطلاح بھی مروج ہو گئی ہے۔ جیسے کہا جائے کہ فلاں ملک میں آرویلیئن طرز کا نظامِ حکومت قائم ہے۔

جاوج آرویل ہی کا ایک اور ناول "اینیمل فارم" بھی بہت مشہور ہے، تاہم میں نے یہ ابھی تک نہیں پڑھا۔

3 تبصرے:

  1. اس ناول کا جو ابتدائی تعارف آپ نے پیش کیا ہے، اسے پڑھ کر میرے ذہن میں فوراً جارج آرویل کا "اینیمل فارم" یاد آیا۔ بنیادی طور اینمل فارم ایک تمثیلی کہانی ہے جس میں جانور متحد ہوکر فارم پر قبضہ کرلیتے ہیں اور پھر سوروں کی حکومت کچھ ایسا ہی کارنامہ انجام دیتی ہے یعنی قوانین، اصولوں اور تاریخ میں اپنی مرضی سے تبدیلی۔ اینمل فارم بھی مختصر ناول ہے اور مجھے پسند آیا۔ اس کا اردو ترجمہ بھی شایع ہوچکا ہے لیکن ترجمہ تھوڑا اصلاح طلب ہے۔ موقع ملا تو انیس سو چوراسی بھی پڑھوں گا۔ معلوماتی تحریر کا شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ عمار بھائی۔ میں نے بھی اینیمل فارم پڑھنے کا ارادہ بنا رکھا ہے۔ ان شاءاللہ جلد ہی اس کو بھی پڑھوں گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. تبصرہ لکھنا نہ بھولیے گا۔

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر