محمد حنیف کے انگریزی زبان میں لکھے گئے اس باکمال ناول نے دنیا بھر میں شہرت پائی۔ بلاشبہ یہ ایک بہت شاندار ناول ہے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ پاکستانی مصنفین کے لکھے انگلش ناولز میں یہ ناول اور دی ریلکٹینٹ فنڈامینٹلسٹ (از محسن حامد) سب سے بہترین ناول ہیں تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا۔ ناول کا پلاٹ حقیقی کرداروں اور حقیقی سچویشن کو لے کے بنایا گیا ہے۔
بنیادی طور پہ یہ ضیاءالحق کے دور کے آخری چند ماہ کی کہانی بیان کرتا ہے۔ واقعات کی سیکوینسز میں کچھ اصل اور حقیقی ہیں تو کچھ افسانوی ہیں۔ جس کی وجہ سے ناول میں تھرل کی کمی کہیں بھی محسوس نہیں ہوتی۔
ناول کا نام ضیاءالحق کے جہاز گرنے کی وجہ بننے والی آموں کی پیٹیوں کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔
ناول کی کہانی کا اختصاریہ کچھ یوں ہے کہ ضیاءالحق کے عروج کے دور میں دوسرے طاقتور ترین آدمی کے طور پہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کو کسی پل چین نہیں آ رہا اور وہ دل ہی دل میں سلگ رہا ہے کہ کس طرح ضیاءالحق کی جگہ لی جا سکے۔ اسی چکر میں وہ ایک ایئرفورس آفیسر علی شگری کو ٹریپ کرتا ہے کہ وہ اپنے والد کا انتقام لینے کے لئے ضیا کا کام تمام کروائے۔ علی شگری کا باپ بھی ایئرفورس آفیسر تھا، جو افغان جنگ میں ضیا اور پاکستانی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر افغان آپریشن کا انتظام چلاتا رہا تھا اور خصوصا" ڈالر کھانے کھلانے میں اس کا بھی ایک اہم رول تھا، جس میں گڑبڑ کے شبے میں اس کے والد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جنرل اختر صاحب علی شگری کو یقین دلاتے ہیں کہ اس کے والد کو مروانے میں تمام تر ہاتھ ضیاء الحق کا ہے۔
اسی دوران جنرل ضیاء کو کچھ وجوہات کی بناء پر شک اور وہم ہو چکا ہوتا ہے کہ کوئی اس کو مروانا چاہتا ہے، جس وجہ سے وہ کئی ماہ تک اپنے گھر یعنی آرمی ہاؤس سے باہر نہیں نکلتا۔ تاہم امریکی ٹینک ابرام کے فائر شو کے مظاہرے کو دیکھنے کے لئے اس کو بہاولپور جانا ہی پڑتا ہے۔ اس میں ضیاء الحق چالاکی سے جنرل اختر کو بھی ساتھ ہی اپنے طیارے میں لے جاتا ہے، اور واپسی پہ بھی اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جنرل اختر اس کے ساتھ ہی جہاز میں بیٹھے۔ جنرل اختر کو علم ہوتا ہے کہ واپسی کے جہاز میں کسی طرح کی سیبوٹیج کاروائی ہونی ہے، اسی چکر میں جہاز پہ سوار نہ ہونے کی بہت حیلہ بازی کرتا ہے، تاہم ضیاء اس کی ایک نہیں سنتا۔ اسی میں مصنف یہ بتاتا ہے کہ جہاز میں آموں کی پیٹییاں رکھوائی جاتی ہیں، جس میں ممکنہ طور پہ وائس چیف جنرل اسلم بیگ کی انوالومنٹ ہوتی ہے۔ اور انہی آموں کی پیٹیوں کی وجہ سے جہاز میں اعصابی گیس وغیرہ سے پائلٹ سمیت سب لوگ بے حس ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں جہاز آخر کار گر جاتا ہے۔
جنرل اسلم بیگ پہلے ہی ضیاءالحق کو انکار کر چکا ہوتا ہے کہ میں اپنے الگ جہاز میں آیا ہوں اور اسی میں واپس جاؤں گا۔ وہ جہاز کے کریش کی سائٹ کو فضا سے دیکھتے ہوئے اسلام آباد پہنچنے کی جلدی کرتا ہے تا کہ جا کے فوج کی کمان سنبھال سکے۔
مصنف نے ناول کے واقعات کو انتہائی شاندار طریقے سے بیان کیا ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی مرحلے پہ تھرل یا دلچسپی کی کمی واقع نہیں ہوتی۔ تاہم یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تمام واقعات حقیقی یا سچ نہیں ہیں۔ جیسے ناول میں یہ بتایا گیا ہے کہ ضیاء کا جہاز گرنے سے چند ماہ پہلے اس کے سیکورٹی انچارج بریگیڈیئر طارق محمود (ایس ایس جی والے) کا پیراشوٹ نہ کھلنے کی کامیاب منصوبہ بندی کی گئی تا کہ ضیاء کے خلاف سازش میں ایسے موثر سیکورٹی چیف کا پتا صاف کیا جا سکے۔ جبکہ حقیقت میں بریگیڈیئر طارق محمود کی وفات ضیا کے حادثے کے اگلے سال میں ہوئی تھی۔
ناول میں مصنف ایک چیز کا کافی جگہوں پہ واقعات کی مدد سے تذکرہ کیا ہے کہ کیسے ضیاء نے اسلام کے نام کو اپنی حکومت چلانے کے لئے استعمال کیا، اور ہر جگہ اسلام اسلام کرنے والے جنرل ضیا کا اصل چہرہ کیا تھا۔ کچھ لوگوں کو اس سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ ذاتی طور پہ میں مصنف سے اس ضمن میں متفق ہوں۔
ناول کے ابتدا کی ایک چیز مجھے بہت شاندار اور پراثر لگی، جس میں مصنف دکھاتا ہے کہ اپنے دور کے اختتام کے قریب ایک دن (جو کہ ناول میں ضیاء الحق کا پہلا سین ہے) ضیاء الحق نے صبح قرآن پاک کی تلاوت کی، اس میں انی کنت من الظالمین کا ترجمہ دیکھتا ہے تو اس میں لکھا ہوتا ہے کہ بلاشبہ میں غلط تھا یعنی
i was indeed wrong
ضیاءالحق کو یاد ہوتا ہے کہ اس نے پہلے جو ترجمہ پڑھا تھا اس میں ترجمہ کچھ یوں تھا
And I am one of those who oppressed their own souls
اس پہ ضیاء کو بے چینی لگتی ہے اور وہ آرمی ہاؤس کی مسجد میں جا کے دوسرے قران پاک کو بھی دیکھتا ہے تو اس میں بھی وہی ترجمہ پاتا ہے کہ بلاشبہ میں غلط تھا۔ اس سے ضیاء کو کچھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کی کہانی کا اختتام قریب ہے۔
اس ناول کے بارے میں حتمی کمنٹ یہی ہے کہ محمد حنیف نے باکمال ناول لکھا ہے اور پڑھنے کے لئے بالکل ریکمنڈڈ ہے، خصوصا" جن لوگوں کو ماضی قریب کے تاریخ، پاکستان کی سیاسی تاریخ وغیرہ سے بھی دلچسپی ہو تو وہ اس ناول کو ضرور انجوائے کریں گے۔
بنیادی طور پہ یہ ضیاءالحق کے دور کے آخری چند ماہ کی کہانی بیان کرتا ہے۔ واقعات کی سیکوینسز میں کچھ اصل اور حقیقی ہیں تو کچھ افسانوی ہیں۔ جس کی وجہ سے ناول میں تھرل کی کمی کہیں بھی محسوس نہیں ہوتی۔
ناول کا نام ضیاءالحق کے جہاز گرنے کی وجہ بننے والی آموں کی پیٹیوں کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔
ناول کی کہانی کا اختصاریہ کچھ یوں ہے کہ ضیاءالحق کے عروج کے دور میں دوسرے طاقتور ترین آدمی کے طور پہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کو کسی پل چین نہیں آ رہا اور وہ دل ہی دل میں سلگ رہا ہے کہ کس طرح ضیاءالحق کی جگہ لی جا سکے۔ اسی چکر میں وہ ایک ایئرفورس آفیسر علی شگری کو ٹریپ کرتا ہے کہ وہ اپنے والد کا انتقام لینے کے لئے ضیا کا کام تمام کروائے۔ علی شگری کا باپ بھی ایئرفورس آفیسر تھا، جو افغان جنگ میں ضیا اور پاکستانی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر افغان آپریشن کا انتظام چلاتا رہا تھا اور خصوصا" ڈالر کھانے کھلانے میں اس کا بھی ایک اہم رول تھا، جس میں گڑبڑ کے شبے میں اس کے والد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جنرل اختر صاحب علی شگری کو یقین دلاتے ہیں کہ اس کے والد کو مروانے میں تمام تر ہاتھ ضیاء الحق کا ہے۔
اسی دوران جنرل ضیاء کو کچھ وجوہات کی بناء پر شک اور وہم ہو چکا ہوتا ہے کہ کوئی اس کو مروانا چاہتا ہے، جس وجہ سے وہ کئی ماہ تک اپنے گھر یعنی آرمی ہاؤس سے باہر نہیں نکلتا۔ تاہم امریکی ٹینک ابرام کے فائر شو کے مظاہرے کو دیکھنے کے لئے اس کو بہاولپور جانا ہی پڑتا ہے۔ اس میں ضیاء الحق چالاکی سے جنرل اختر کو بھی ساتھ ہی اپنے طیارے میں لے جاتا ہے، اور واپسی پہ بھی اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جنرل اختر اس کے ساتھ ہی جہاز میں بیٹھے۔ جنرل اختر کو علم ہوتا ہے کہ واپسی کے جہاز میں کسی طرح کی سیبوٹیج کاروائی ہونی ہے، اسی چکر میں جہاز پہ سوار نہ ہونے کی بہت حیلہ بازی کرتا ہے، تاہم ضیاء اس کی ایک نہیں سنتا۔ اسی میں مصنف یہ بتاتا ہے کہ جہاز میں آموں کی پیٹییاں رکھوائی جاتی ہیں، جس میں ممکنہ طور پہ وائس چیف جنرل اسلم بیگ کی انوالومنٹ ہوتی ہے۔ اور انہی آموں کی پیٹیوں کی وجہ سے جہاز میں اعصابی گیس وغیرہ سے پائلٹ سمیت سب لوگ بے حس ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں جہاز آخر کار گر جاتا ہے۔
جنرل اسلم بیگ پہلے ہی ضیاءالحق کو انکار کر چکا ہوتا ہے کہ میں اپنے الگ جہاز میں آیا ہوں اور اسی میں واپس جاؤں گا۔ وہ جہاز کے کریش کی سائٹ کو فضا سے دیکھتے ہوئے اسلام آباد پہنچنے کی جلدی کرتا ہے تا کہ جا کے فوج کی کمان سنبھال سکے۔
مصنف نے ناول کے واقعات کو انتہائی شاندار طریقے سے بیان کیا ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی مرحلے پہ تھرل یا دلچسپی کی کمی واقع نہیں ہوتی۔ تاہم یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تمام واقعات حقیقی یا سچ نہیں ہیں۔ جیسے ناول میں یہ بتایا گیا ہے کہ ضیاء کا جہاز گرنے سے چند ماہ پہلے اس کے سیکورٹی انچارج بریگیڈیئر طارق محمود (ایس ایس جی والے) کا پیراشوٹ نہ کھلنے کی کامیاب منصوبہ بندی کی گئی تا کہ ضیاء کے خلاف سازش میں ایسے موثر سیکورٹی چیف کا پتا صاف کیا جا سکے۔ جبکہ حقیقت میں بریگیڈیئر طارق محمود کی وفات ضیا کے حادثے کے اگلے سال میں ہوئی تھی۔
ناول میں مصنف ایک چیز کا کافی جگہوں پہ واقعات کی مدد سے تذکرہ کیا ہے کہ کیسے ضیاء نے اسلام کے نام کو اپنی حکومت چلانے کے لئے استعمال کیا، اور ہر جگہ اسلام اسلام کرنے والے جنرل ضیا کا اصل چہرہ کیا تھا۔ کچھ لوگوں کو اس سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ ذاتی طور پہ میں مصنف سے اس ضمن میں متفق ہوں۔
ناول کے ابتدا کی ایک چیز مجھے بہت شاندار اور پراثر لگی، جس میں مصنف دکھاتا ہے کہ اپنے دور کے اختتام کے قریب ایک دن (جو کہ ناول میں ضیاء الحق کا پہلا سین ہے) ضیاء الحق نے صبح قرآن پاک کی تلاوت کی، اس میں انی کنت من الظالمین کا ترجمہ دیکھتا ہے تو اس میں لکھا ہوتا ہے کہ بلاشبہ میں غلط تھا یعنی
i was indeed wrong
ضیاءالحق کو یاد ہوتا ہے کہ اس نے پہلے جو ترجمہ پڑھا تھا اس میں ترجمہ کچھ یوں تھا
And I am one of those who oppressed their own souls
اس پہ ضیاء کو بے چینی لگتی ہے اور وہ آرمی ہاؤس کی مسجد میں جا کے دوسرے قران پاک کو بھی دیکھتا ہے تو اس میں بھی وہی ترجمہ پاتا ہے کہ بلاشبہ میں غلط تھا۔ اس سے ضیاء کو کچھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کی کہانی کا اختتام قریب ہے۔
اس ناول کے بارے میں حتمی کمنٹ یہی ہے کہ محمد حنیف نے باکمال ناول لکھا ہے اور پڑھنے کے لئے بالکل ریکمنڈڈ ہے، خصوصا" جن لوگوں کو ماضی قریب کے تاریخ، پاکستان کی سیاسی تاریخ وغیرہ سے بھی دلچسپی ہو تو وہ اس ناول کو ضرور انجوائے کریں گے۔
Good to see u sir ji, welcome back :)
جواب دیںحذف کریںشکریہ جناب کا۔
جواب دیںحذف کریںناول کا تعارف بہت خوبصورت انداز میں کروایا آپ نے ۔ بہت بہت شکریہ
جواب دیںحذف کریں