پیر، 7 اپریل، 2014

میرے عزیز ہم وطنو

پاکستان جب سے بنا ہے، ایک چیز تواتر سے ہر کچھ عرصے بعد ہمارے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے، اور وہ ہے میرے عزیز ہم وطنو۔ اس شروعات کے بعد کا جو متن ہے، وہ کم وبیش ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ یعنی کہ ملک و ملت کو عظیم الشان خطرات لاحق ہو چکے تھے، نظریہ پاکستان کو گروی رکھ دیا گیا تھا، کرپشن کا دور دورہ ہو چکا تھا۔ مختصر یہ کہ حالات اس نہج پہ پہنچا دیئے گئے تھے کہ اسلام کے اس قلعے کی حفاطت کے لئے مجھے مجبورا" میرے عزیز ہم وطنو
کرنا پڑ گیا ہے۔ لہٰذا میرے عزیز وطنو! اب تم سب سے التماس ہے کہ مجھے دس بارہ سال کم از کم برداشت کرو اور اس سے اگلے دس بیس سال میرے اثرات و باقیات کو بھی برداشت کر لینا۔
مزید بدقسمتی یہ ہے کہ بھاڑے کے کالم نگاروں، دانشوروں اور ٹٹ پونجئے مفکروں کی مدد سے یہ پرچار بھی بہت سے ذہنوں میں یونیورسل ٹرتھ کی مانند منقش ہو چکا ہے کہ تمام سیاست دان ایک نمبر کے حرام خور ہیں، جبکہ فوجی حکمران اقتدار پہ قبضہ جمانے کے بعد ملک کو استحکام پخشتا ہے، معیشت کو پروان چڑھاتا ہے، کرپشن سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ یعنی کہ اگر اس ملک نے بچنا ہے تو ضروری ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد فوجی حکمران آ کر تطہیر کی رسم ادا کر دیا کریں۔

میری ذاتی رائے میں پاکستان جن تمام مسائل سے دوچار ہے، ان سب کے پیچھے یہی میرے عزیز ہم وطنو کارفرما ہے۔ فوجی حکمرانی کے دور میں سب اچھا دکھائی دے رہا ہوتا ہے، لیکن ان کے کرتوتوں کے اثرات مابعد ان کے جانے کے بعد ذرا واضح ہو کر سامنے آنا شروع ہوتے ہیں۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ کوئی اسلام کے نام پہ اس ملک کا بیڑا غرق کر گیا، اور کوئی طالبان کے نام پہ ملک کو جنگ میں دھکیل گیا۔ کسی نے کراچی میں ایم کیو ایم لا کھڑی کی، کسی نے بلوچستان میں آگ لگائی اور کسی نے مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بنا دیا۔

جو لوگ سیاسی حکمرانوں کی کرپشن کو بہانہ بنا کر فوجی ٹیک اوور کی حمایت کرتے ہیں، ان سے صرف اتنا پوچھا جانا چاہئے کہ تین چار فوجی حکمرانوں کے دور میں کتنے سیاست دانوں یا کرپٹ بیوروکریٹوں کو سزا ہوئی۔ کتنوں سے لوٹ کا مال واپس چھینا گیا اور کتنوں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے صرف ایک اہم شخصیت کو فوجی حکومت کے دور میں سزا ہوئی تھی اور وہ تھا ذوالفقار علی بھٹو۔ اور اس کو بھی کرپشن پہ نہیں، بلکہ فوجداری مقدمے میں سزا ہوئی تھی۔ نیز یہ کہ اس پھانسی کے ذیلی اثرات کو یہ ملک آج تک بھگت رہا ہے۔

گزشتہ پانچ چھ سال کی سیاست پہ نظر ڈالیں تو ایک مثبت پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ اب بڑی سیاسی قوتیں میرے عزیز ہم وطنو کے خلاف یکجا ہیں اور اعلانیہ یا غیراعلانیہ طور پہ یہ واضح کر چکی ہیں کہ مستقبل میں ایسے کسی میرے عزیز ہم وطنو کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ دیکھا جائے تو یہ ایک اہم ترین پیش رفت ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے جب بھی فوجی ٹیک اوور ہوا، تو اس کو جِلا بخشنے کے لئے بہت سے سیاسی لونڈے اکٹھے کر کے کبھی کنونشن مسلم لیگ بنائی گئی اور کبھی مسلم لیگ ق بنوائی گئی۔

لیکن آج تینوں بڑی جماعتیں یعنی مسلم لیگ ن، پی پی پی اور تحریک انصاف کی قیادت اور کسی چیز پہ متفق ہو یا نہ ہو، لیکن اس بات پہ ضرور متفق ہے کہ اب کسی آمر کی حمایت کا سوچنا بھی نہیں۔ ان کے علاوہ دیگر چھوٹی جماعتوں میں بھی بالعموم یہی سوچ پائی جاتی ہے۔ سوائے لندن میں خودساختہ جلاوطن سیاسی مسخرے کے، اور شیخ رشید جیسے سیاسی ہیجڑوں کے۔

میری نظر میں یہ ایک مثبت پیش رفت ہے اور اللہ کرے کہ پاکستان میں جمہوری اور سیاسی قوتیں مزید مضبوط ہوں۔ اور جو تماشے اس ملک نے گزشتہ پچاس پچپن سالوں میں دیکھ لئے ہیں، ان سے دوبارہ واسطہ نہ ہی پڑے۔ 

3 تبصرے:


  1. مبشر لقمان صاحب اپنے ایک پروگرام میں مشرف کے اپنی ماں کی قسم کھانے پر جذباتی ہو گئے
    مشرف پر کرپشن کا الزام نہ ہونا ایک طرف پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قسمیں اتنی ہی قابل اعتبار ہیں تو کل کو کوئی شخص قسم کھا کر کہہ دے میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہتا ہوں میں نے مبشر لقمان کو فلاں فلاں شخص کو قتل کرتے دیکھا ہے تو کیا دنیا کو سچ مان لے؟؟؟؟
    جب اپنے آپ کو بیچنا ہی ٹھرا تو ڈھنگ کی قیمت ہی مقرر کر لینی چاہئیے

    جواب دیںحذف کریں
  2. جی جی کرپشن کا الزام مشرف پہ بالکل بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ ہمارے خاموش مجاہد صاحب پہ بھی نہیں تھا۔ لیکن چشمِ فلک حیران ہے کہ پھر یہ اربوں ڈالر (جی جی اربوں ڈالر) ان کی اولادوں کے یا ان کے اپنے پاس کہاں سے آ جاتے ہیں۔

    اوہ بھائی صاحب! آپ کا کیا خیال ہے، وہ کیا تھا مشرف کے پاس جس کی وجہ سے اس کے مشیر اس کو عوامی مقبولیت کی میٹھی داستانیں اور ہزاروں فیس بک اکاؤنٹوں کی خوشبو سنگھاتے سنگھاتے پاکستان واپس لے آئے تھے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک عام سرکاری ملازم چاہے وہ جرنیل ہی کیوں نہ رہا ہو، وہ اپنی ذاتی جیب سے ایک عدد سیاسی پارٹی چلانا افورڈ کر لے۔ اور بقول آپ کے اس پہ کرپشن کا داغ بھی نہ ہو۔

    ویسے ہمت ہے آپ کی، جو مبشر لقمان کا پروگرام بھی دیکھ فرماتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. جی درست فرمایا آپ نے کہنے کا مطلب تھا "آن دا پیپر" الزام نہیں ہے جس کی بنیاد پر واہ واہ ہے
    کیا کریں ہمت کرنا پڑتی ہے ریموٹ چھین کر چینل تبدیل کرنے کی ہم جسارت کر نہیں سکتے مجبوریاں اپنی اپنی ;)

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر