اتوار، 15 اپریل، 2012

مقدّمہ از ابنِ خلدون

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مقدّمہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ یہ آج سے تقریبا" ساڑھے سات سو سال پہلے لکھا گیا وہ شاہکار ہے جس کی قدر و قیمت کو زمانے نے کافی بعد میں جانا۔
نامور مورخ ابنِ خلدون 1332 میں پیدا ہوا اور 1406 میں وفات پائی۔ اس نے بہت سی جلدوں پر مشتمل تاریخ کی کتاب مرتب کی جو کہ تاریخِ ابنِ خلدون کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ابنِ خلدون نے اسی کتاب کا ابتدائیہ (جو کہ مقدّمہ یعنی preface کہلاتا ہے) بھی لکھا۔

اور اس میں نہ صرف تاریخ بلکہ عمرانیات، فلسفہ، سائنس، سیاسیات، انٹرنیشنل پالیٹکس، ملٹری پالیٹکس اور پاور پالیٹیکس پہ تفصیل سے روشنی ڈالی۔ حتٰی کہ مقدمہ بذاتِ خود ایک ضخیم جلد کی صورت اختیار کر گیا۔ تاریخِ ابنِ خلدون کی اہمیت سے تو کسی کو انکار نہیں لیکن اپنے نکتہ آفرین و نابغۂ روزگار مندرجات کی بدولت مقدّمۂ ابنِ خلدون نے شہرت اور اہمیت کی ان بلندیوں کو چھوا جو کہ تاریخِ انسانی میں کم کم کتب کے حصے میں آئی ہوں گی۔
تاریخ تو بہت مورخین نے لکھی، لیکن فلسفۂ تاریخ، قوموں کے عروج و زوال کے اسباب، طرزِ معاشرت کی اہمیت، عصبیت و مذہب کے محرکات، تمدن کا عروج اور پھر اس کا شیرازہ بکھرنا، طوائف الملوکی کے اسباب وغیرہ پہ جس تفصیل اور دلیل کے ساتھ ابنِ خلدون نے روشنی ڈالی، شاید ہی کسی نے لکھا ہو۔
اسی واسطے سے ابنِ خلدون کو جدید فلسفۂ عمرانیات کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔
مقدّمۂ ابنِ خلدون کے متوازی کچھ دیگر کتب بھی ہیں جن کا موازنہ اس کتاب سے کیا جاتا ہے۔ جیسے میکیاولی کی دی پرنس، افلاطون کی ری پبلک، کارل مارکس کی داس کیپیٹل، ہٹلر کی مائن کیمپف وغیرہ۔ تاہم ان پہ کبھی بعد میں لکھوں گا۔

فی الحال زیادہ تفصیل سے بور کرنے کی بجائے صرف چند باتیں شیئر کرنا چاہوں گا جو کہ اس بلاگ کے لکھنے کا اصل سبب ہیں۔
مقدّمہ سے کچھ نکات جو کہ بنیادی طور پہ اس میں شامل مضامین میں سے کچھ کی شہ سرخیاں یا ٹائٹلز ہیں۔
پڑھئے اور غور کیجئے کہ ان کا آج کل کے حالات پہ بھی کس حد تک اطلاق ہوتا ہے۔


انسانی بقا کے لئے اجتماع ضروری ہے۔

معاشرے کے لئے پنچ کا ہونا لازمی ہے کیونکہ بادشاہت ایک انسانی خاصہ ہے۔

غیر معتدل اقلیموں کے باسی تمدن سے دور ہوتے ہیں۔

ذریعۂ معاش انسان کو مختلف طبقوں میں بانٹ دیتا ہے۔

جب پیشہ ور فراخ حال ہو جاتے ہیں تو وہ نئے شہر اور قصبے آباد کرتے ہیں۔

حکومت کا ظالمانہ رویہ جذبۂ شجاعت کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔

شہریوں کو حکومت باہمی ظلم سے روکتی ہے جبکہ بدوؤں کو ان کے سردار ظلم سے روکتے ہیں۔

ہر تحریک کو پروان چڑھانے کے لئے خونی رشتہ کا ہونا ضروری ہے۔

حکومت اسی قبیلے میں رہتی ہے جو سب سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔

حکومت کا مدار عصبیت پر ہے۔ (جیسے لیبیا میں قذافی کی قوت قذافہ قبیلے کی بدولت تھی)۔

باہر کے شخص کو قبیلہ میں عصبیت حاصل نہیں ہوتی۔

ایک خاندان میں حسب کی انتہا چار پشتوں تک ہے۔ (یعنی اس کے اثرات چار پشتوں تک جاتے ہیں)۔

مختلف عصبیتوں والی ریاست میں طاقتور عصبیت ہی غلبہ میں رہتی ہے۔

عیاشی اور کھیل کود میں پڑنے سے حکومت اور بقائے حکومت کے لئے ایک زبردست رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

عیش پرست والدین کی اولاد بھی عیش پرست ہوتی ہے۔

ذلت والی اطاعت بھی حکومت میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ (حسبِ حال لگتا ہے!!!)۔

ایک نسل کی عمر کی مدت چالیس سال ہے۔ (صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے)۔

جب تک کسی قوم میں عصبیت ہے، اس سے حکومت نہیں نکلتی۔ ہاں خاندانوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔

مفتوح قومیں فاتح قوم کا تمدن خوشی سے قبول کر لیتی ہیں۔

مذہبی تحریک قوتِ عصبیت کو بہت بڑھا دیتی ہے۔

مذہبی تحریک عصبیت کے بغیر پروان نہیں چڑھتی۔

جب حکومت پر بڑھاپا طاری ہونے لگتا ہے اور اس میں کمزوری آنے لگتی ہے تو پہلے وہ اپنے اطراف و جوانب سے سمٹتی ہے اور مرکز محفوظ رہتا ہے حتٰی کہ مرکز کی فنا کا حکم بھی آن پہنچتا ہے۔

جن ملکوں میں قبیلوں اور جماعتوں کی کثرت ہوتی ہے وہاں کی حکومت مستحکم نہیں رہتی۔

لوگوں کی طرح حکومتوں اور نظام کی عمریں بھی طبعی ہوتی ہیں اور ایک سو بیس سے آگے شاذ و نادر ہی کوئی نظام یا حکومت چل پاتی ہے۔

شرحٔ محاصل (یعنی ٹیکسوں) کی زیادتی بربادی کا سبب ہے۔

لالچی اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے بادشاہ کو کاروبار پر ابھارتے ہیں۔ (مثال: حکومت پاکستان)۔

ظلم سے کاروبار اور منڈیوں میں تعطل آتا ہے۔ (کراچی؟؟)۔

حکومت میں کمزوری آنے کے بعد جاتی نہیں۔

عظیم شہر اور سربفلک عمارتیں بڑی طاقتوں والی حکومتیں ہی بناتی ہیں۔ (سات سو سال پہلے کا فلسفہ ہے ۔ ۔ ۔ حیران کن)۔

تاجروں کے اخلاق شرفاء اور سلاطین کے اخلاق سے پست ہوتے ہیں۔ اور تاجر بے مروت ہوتے ہیں۔

ارزانی صنعت کاروں کے لئے نقصان دہ ہے۔ (حسبِ حال ہے)۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر