ہفتہ، 28 جولائی، 2012

پیلوں پکیاں نی ۔ خواجہ غلام فرید

آ چنوں رل یار
پیلوں پکیاں نی وے

پیلو پک گئی ہیں، میرے دوست آ جاؤ انہیں مل جل کر اکٹھا کریں

کئی بگڑیاں کئی ساویاں پیلیاں
کئی بھوریاں کئی پھِکڑیاں نیلیاں
کئی اودیاں گلنار
کٹویاں رتیاں نی وے

یہ بہت ہی خوبصورت رنگوں کی ہیں۔ ان میں کچھ سفید ہیں، کچھ سبز اور زرد ہیں، کئی بھوری اور ہلکے رنگ کی ہیں، کئی دودھیا رنگ کی ہیں اور کئی نہایت سرخ گل اناری رنگ کی ہیں

بار تھئی ہے رشک ارم دی
سک سڑ گئی جڑ دکھ تے غم دی
ہر جا باغ و بہار
ساکھاں چکھیاں نی وے

ان کی وجہ سے ویرانہ، رشکِ ارم بن گیا ہے۔ ہر طرف باغ و بہار کا سماں بندھ گیا ہے۔ غم و آلام کی بنیاد ختم ہو گئی ہے۔ سبھی لوگ اس پھل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، کیا تو نے بھی انہیں چکھا ہے

پیلوں ڈیلھیاں دیاں گلزاراں
کہیں گل ٹوریاں کہیں سر کھاریاں
کئی لا بیٹھیاں بار
بھر بھر پچھیاں نی وے

پیلوں اور کریر کے پھلوں نے ریگزار کو رشکِ گلزار بنا دیا ہے۔ انہیں چننے کے لئے کسی نے ہلکی ٹوکری گلے میں لٹکائی ہے اور کسی نے سر پر ٹوکرا رکھا ہوا ہے۔ کئی ٹوکریاں بھر بھر کر اور انبار بنا بنا کر بیٹھی ہیں

جال جلوٹیں تھئی آبادی
پل پل خوشیاں دم دم شادی
لوکی سہنس ہزار
کل نے پھکیاں نی وے

ہر جھاڑی کے پیچھے لوگوں کے ٹھکانے بن گئے ہیں، ہر طرف انبساط و مسرت کا دور دورہ ہے۔ سینکڑوں ہزاروں آدمی ان پیلوں کو مٹھیاں بھر بھر کر کھا رہے ہیں

حوراں پریاں ٹولے ٹولے
حسن دیاں ہیلاں برہوں دے جھولے
راتیں ٹھڈیاں ٹھار
گوئلیں تتیاں نی وے

یہاں کی مہ جبیں، حور شمائل، پری پیکر لڑکیاں ٹولیاں بنا کر پیلوں چن رہی ہیں۔ ہر طرف حسن و جمال اور عشق و محبت کی جلوہ آرائی ہے۔ راتیں سرد ترین لیکن گھر خاصے گرم ہیں

رکھدے ناز حسن پروردے
ابرو تیغ تے تیر نظر دے
تیز تِکھے ہتھیار
دِلیاں پھٹیاں نی وے

حسن و جمال کے پروردہ ہی "رہزن" تیغِ ابرو اور تیرِ نظر جیسے ہتھیاروں سے لیس ہو کر دلوں کو زخمی کر رہے ہیں

کئی ڈیون ان نال برابر
کئی گھِن آون ڈیڈھے کر کر
کئی ویچن بازار
تلیاں تکیاں نی وے

پیلوں کی خرید و فروخت بھی عجب رونق افزا ہے، کئی اناج کے بدلے فروخت کر رہی ہیں، کئی ڈیڑھ گنا زیادہ قیمت وصول کر رہی ہیں اور کئی وزن کر کے بازار میں بیچ رہی ہیں

کئی ڈھپ وچ وی چنڈھیاں رھندیاں
کئی گھِن چھان چھنویرے بہندیاں
کئی چن چن پیاں ہار
ہٹیاں تھکیاں نی وے

کئی عورتیں شدید تمازت کے باوجود پیلوں چنتی رہتی ہیں، کئی سائے میں بیٹھی سستا رہی ہوتی ہیں اور کئی چن چن کر تھک ہار بیٹھی ہیں

ایڈوں عشوہ غمزے نخرے
اوڈوں یار خرایتی بکرے
کسن کان تیار
رانداں رسیاں نی وے

اِدھر سے ناز و ادا ہیں، ادھر سے صاحبانِ نظر قربانی کے بکروں کی طرح ذبح ہونے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔ کیسے مزے کے کھیل رچے ہوئے ہیں

پیلوں چنڈیں بوچھن لیراں
چولا وی تھیا لیر کتیراں
گِلڑے کرن پچار
سینگیاں سکیاں نی وے

پیلوں چنتے ہوئے کسی کا کا دوپٹہ پھٹ جاتا ہے، کسی کا کرتہ تار تار ہو جاتا ہے اور سہیلیوں کی ہنسی مذاق کا نشانہ بن جاتی ہے

آیاں پیلوں چنن دے سانگے
اوڑک تھیاں فریدن وانگے
چھوڑ آرام قرار
ہکیاں بکیاں نی وے

وہ آئیں تو پیلوں چننے کی خاطر تھیں لیکن فرید کی طرح تیرِ عشق سے ایسی گھائل ہوئیں کہ اپنا آرام سکون چھوڑ کر نقشِ حیرت بن گئیں

خواجہ غلام فرید

2 تبصرے:

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر